ایک شخص اپنی بیوی کی تمام ضروریات نان ونفقہ، لباس کے اخراجات کا خیال کرتا ہے اور بیوی کو رہائش کے واسطے بنگلہ کا مکمل فلور علیحدہ طور پر دیا ہوا ہے،،جس میں پانچ کمرے ہیں اور دیگر تمام ضروریات باورچی خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ اس میں موجود ہے،اس فلور کے نیچے فلور میں اس شخص کے والدین رہتے ہیں،اب بیوی کا مطالبہ کررہی ہے،کہ اسے اس فلور کے علاوہ بالکل الگ گھر دیا جائے،کیا بیوی کا یہ مطالبہ کرنا صحیح ہے؟
واضح رہے کہ شوہر کے ذمہ لازم ہے کہ وہ بیوی کے تمام ضروری اخراجات یعنی نان ونفقہ ،لباس دینے کے علاوہ رہائش کا انتظام کرے،رہائش سے مراد ایک ایسا کمرہ جس میں بیوی کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہ ہوسکے، جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو،ایسا کمرہ جس میں کا سازو سامان ہو،بیوی کو رہائش کے لیےعلیحدہ مکان فراہم کرنا شرعاً شوہر پر لازم نہیں ہے اور نہ ہی بیوی کی جانب سے علیحدہ مکان کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے۔
مذکورہ تفصیل کی رو سےصورتِ مسئولہ میں شوہر نے بیوی کے لیے صرف ایک کمرہ نہیں بلکہ علیحدہ طو پر مکمل ایک فلور رہائش کے لیے دیا ہوا،باورچی خانہ بھی علیحدہ ہےاور بیت الخلاء بھی الگ ہے،تو ان سب کے باوجود بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا قطعاً درست نہیں،بیوی پرضروری ہے،کہ وہ اپنے شوہر سے اس قسم کا ناجائز مطالبہ نہ کرے،گھر کو آباد رکھے، جائز امور اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور ہاں میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے تمام شرعی حقوق کو ادا کریں۔
قرآن پاک میں ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ.(البقرة، 228)
ترجمہ: اور عورتوں کے لیے بھی حقوق ہیں،جو کہ مثل ان ہی حقوق کے ہیں جو ان عورتوں پر ہیں قاعدہ(شرعی) کے موافق اور مردوں کا ان کے مقابلہ میں کچھ درجہ بڑا ہوا ہے۔(بیان القرآن)
ابن کثیر میں ہے:
"عن جابر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال في خطبته في حجة الوداع فاتقوا الله في النساء، فإنكم أخذتموهن بأمانة الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله، ولكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن رزقهن وكسوتهن بالمعروف. وفي حديث بهز بن حكيم عن معاوية بن حيدة القشيري عن أبيه عن جده أنه قال: يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا؟ قال «أن تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسبت، ولا تضرب الوجه، ولا تقبح، ولا تهجر إلا في البيت» وقال وكيع، عن بشير بن سليمان، عن عكرمة عن ابن عباس، قال: إني لأحب أن أتزين للمرأة كما أحب أن تتزين لي المرأة، لأن الله يقول ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف ورواه ابن جرير وابن أبي حاتم، وقوله وللرجال عليهن درجة أي في الفضيلة في الخلق والخلق والمنزلة وطاعة الأمر والإنفاق والقيام بالمصالح والفضل في الدنيا والآخرة، كما قال تعالى: الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم."
(سورۃ البقرۃ، 459/1، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثاني في السكنى، 556/1، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك، وليس للزوج أن يسكن امرأته وأمه في بيت واحد؛ لأنه يكره أن يجامعها وفي البيت غيرهما؛ وإن أسكن الأم في بيت داره والمرأة في بيت آخر فليس لها غير ذلك."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب في مسكن الزوجة، 601/3، ط: سعید)
وفيه ايضاً:
"وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر.
(قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب في مسكن الزوجة، 600/3، ط: سعید)
بدائع الصانع میں ہے:
"وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل{فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا}[النساء: 34] ، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."
(كتاب النكاح، فصل وجوب طاعة الزوج على الزوجة إذا دعاها إلى الفراش، 334/2، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100418
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن