بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الزائمر بیماری میں مبتلا والد کو مینٹل ہسپتال میں داخل کرنے کاحکم


سوال

میرے والد صاحب 5 سال سے الزائمر بیماری میں مبتلا ہے ،علاج ومعالجہ  سے کوئی افاقہ نہیں ہوا ،اب طبیعت مزیدخراب ہوگئی ہے،دن رات چلّاتے ہیں؛ جس کی وجہ سے گھر والے سو نہیں سکتے  ،توکیاایسی حالت میں ان کومینٹل  ہسپتال  میں داخل کرنا  جائز ہے ،جہاں ان کی صحیح دیکھ بھال ہوسکے؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے  والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بےحد تاکیدفرمائی ہے،خصوصاًجب کہ وہ بوڑھاپے کی عمر میں پہنچ جائیں،کیونکہ  اس عمر میں وہ اپنے ضعف اوربڑھاپے کی وجہ سے خدمت اورحسنِ سلوک کے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔علامہ قُرطبی ،ارشادخداوندی(إِمَّا يَبۡلُغَنَّ عِندَكَ ٱلۡكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوۡ كِلَاهُمَا) کے تحت فرماتے ہیں :

"خص حالة الكبر لأنها الحالة التي يحتاجان فيها إلى بره لتغير الحال عليهما بالضعف والكبر، فألزم في هذه الحالة من مراعاة أحوالهما أكثر مما ألزمه من قبل؛لأنهما في هذه الحالة قدصارا كلاعليه،فيحتاجان أن يلي منهمافي الكبرما كان يحتاج في صغره أن يليامنه،فلذلك خص هذه الحالة بالذكر."

(الجامع لأحكام القرآن،ج:13،ص:56،ط:الرسالةالعالمية)

والدین کی اطاعت،فرمان برداری اوران کے ساتھ حسنِ سلوک  سے متعلق قرآن وحدیث میں بے شمارنصوص وارد ہوئیں ہیں ،جس سے واضح ہوتاہے کہ ان کی ہرممکنہ خدمت کی جائے ،ان کے منشاءکابھرپورلحاظ رکھاجائے،ان کے خواہش کااحترام کیاجائے،اس سلسلہ میں پیش آمدہ دشواریوں کوخندہ پیشانی سے برداشت کیاجائے،بلکہ خدمت کے اس موقعہ کوغنیمت سمجھناچاہیے،اوراسےاپنے لیے سعادت وبرکت کاذریعہ جانناچاہیے،ان کی طرف محبت کی ایک نگاہ ڈالنے سے حج ِمقبول کا ثواب ملتاہے۔اور بڑھاپے میں دالدین کی خدمت کرکے ان کوراضی کرنا جنت کاذریعہ ہے اور بڑھاپے میں خدمت کاموقع ملنے کے باوجود خدمت نہ کرنا تباہی اوربربادی کاذریعہ ہے ،جناب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہے ۔

"عن أبي هريرة رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم ‌رَقى ‌المِنبرَ فَقال: (آمينَ آمينَ آمينَ) قِيل لَه يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كُنتَ تَصنَعُ هَذا؟ فَقَالَ: (قَال لِي جِبريلُ رَغمَ أنفُ عَبدٍ أَدرك أَبويهِ أَو أَحدَهُما لَمْ يُدخِلهُ الجَنةَ. قُلتُ آمينَ. ثُم قَال: رَغمَ أَنفُ عَبدٍ دَخلَ عَليه رمضانَ لَم يُغفرَ لَه. فَقلتُ: آمينَ. ثُم قَال: رَغم أَنفُ امرئٍ ذُكرتَ عِندهُ فَلم يُصلِ عَليك. فَقلتُ: آمين)."
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھےتوفرمایا:’’آمین،آمین،آمین‘‘آپ سے عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول!پہلے توآپ ایسا نہیں کرتے تھے؟آپ نے فرمایا:’’جبرئیل امین علیہ السلام نے مجھ سے کہاہے:’’اس بندے كي ناك خاك آلود ہوجس نے اپنے ماں باپ یادونوں میں سے کسی ایک کوپایااورپھر بھی جنت میں داخل نہ ہوا۔میں نے اس پر آمین کہا۔پھرانہوں نے کہا:اس بندے کی ناک خاک آلود ہوجس پررمضان آیا اوراس کی مغفرت نہ کی گئی تومیں نے آمین کہا ۔پھر انہوں نے کہا:ذلیل ہووہ آدمی جس کے سامنے آپ کانام لیاگیا اوراس نے آپ پردرود نہ پڑھاتومیں نے آمین کہا۔

(الأدب المفرد،رقم الحديث:646،ط:مكتبة المعارف للنشروالتوضيع رياض)

"عن ابن عباس رضي الله عنهما:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((مامن ولد بار ينظر إلى والديه نظرة رحمة إلا كتب الله له بكل نظرة حجة مبرورة)).قالوا:وإن نظر كل يوم مائةمرة؟قال:((نعم،الله اكبرواطيب))
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنهماسے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جواولاد بھی اپنے والدین پرایک بارنگاہِ رحمت ڈالتی ہے تواللہ تعالی ہرنگاہ کے بدلہ میں حجِ مقبول کا ثواب لکھ دیتاہے ۔لوگوں نے پوچھا:خواہ وہ ہردن سومرتبہ نگاہ ڈالے؟توآپ نے فرمایا:ہاں،اللہ بہت بڑااورپاک ہے۔

(مشكوة المصابيح،باب البروالصلة،الفصل الثالث،رقم:4944)

لہٰذا حسنِ سلوک کاتقاضایہ ہے ان کوگھرمیں رکھ کران کی خدمت بجالائی جائے؛ تاکہ بچوں میں ان کادل بہلارہےاوران کی آنکھیں ہروقت اپنی اولاد سے ٹھنڈی رہیں،مینٹل ہسپتال میں ان کے آرام کاخیال کتناہی رکھاجائےان کادل خوش نہیں رہ سکتا،اورنہ ہی ان کی رضاحاصل ہوسکتی ہے، جس کے فضائل اوپربیان کیے گیے،اورنہ ہی ان پر محبت کی نگاہ ڈالنے کاثواب حاصل ہوگا، اورنہ ہی قرآن وحدیث میں جس حسن ِسلوک کاحکم دیاگیاہےاس کی صحیح ادائیگی ہوگی۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالااعذار کی وجہ سے والد کومینٹل ہسپتال میں داخل کرنا اخلاقاًدرست نہیں ہے، ہاں اگر اس میں داخل کرنے سے بیماری میں بہتری کی امید ہے تو علاج کے لیے رکھنا جائز ہوگا ورنہ نہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں