بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے الفاظ میں ”الصلاة في رحالكم“ کہنے کا حکم


سوال

اذان کے الفاظ میں ”الصلاة في رحالكم“کہنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

سخت آندھی اور تیز  بارش کے مواقع پر  مذکورہ جملہ ” أ لَا صَلُّوا فِي رِحَالِکُمْ“  (آگاہ رہو! نماز اپنے گھروں میں پڑھو ) کہنا حدیث سے ثابت ہے،  لیکن  مذکورہ جملہ اذان  کے درمیان یا حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کی جگہ کہنا درست نہیں ہے، بلکہ یہ جملہ اذان کے بعد کہا جاسکتا ہے، اذان میں کسی قسم کا تغیر وتبدل نہیں کیا جائے، اذان جس طرح عام حالات میں دی جاتی ہے اسی طرح دی جائے گی،  پھر اگر شدید عذر کی وجہ سے اہل محلہ  کاجماعت میں شریک  ہونا ممکن نہ ہوتو مذکورہ جملہ کہہ دیا جائے۔

اس سے متعلق روایات درج ذیل ہیں:

صحيح البخاري (1/ 129):

" أخبرنا يحيى، عن عبيد الله بن عمر، قال: حدثني نافع، قال: أذن ابن عمر في ليلة باردة بضجنان، ثم قال: صلوا في رحالكم، فأخبرنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر مؤذنا يؤذن، ثم يقول على إثره: «ألا صلوا في الرحال» في الليلة الباردة، أو المطيرة في السفر."

ترجمہ : حضرت نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سردی کی رات کو ضجنان نامی پہاڑی پر چڑھ کر اذان دی،  اذان دینے کے بعد یہ کہہ دیا کہ ” أ لَا صَلُّوا فِي رِحَالِکُمْ“     (اپنے گھروں میں نماز ادا کرلو) اور ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سردی یا  سفر میں بارش کی رات میں  مؤذن کو حکم دے دیتے تھے کہ اذان کے بعد وہ یہ کہہ دے کہ ” أ لَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ“  ۔

صحيح مسلم (1/ 484):

"حدثني نافع، عن ابن عمر، أنه نادى بالصلاة في ليلة ذات برد وريح ومطر، فقال في آخر ندائه: ألا صلوا في رحالكم، ألا صلوا في الرحال، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن، إذا كانت ليلة باردة، أو ذات مطر في السفر، أن يقول: «ألا صلوا في رحالكم»."

ترجمہ : ابن عمر  ؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز کے لیے ایک ایسی رات میں اذان دی  کہ جس میں سردی اور ہوا اور بارش تھی پھر اپنے اس  اذان  کے  آخر میں فرمایا: آگاہ رہو! نماز اپنے گھروں میں ہی پڑھو، پھر فرمایا کہ رسول اللہ مؤذن کو حکم فرماتے جب رات سرد ہوتی یا بارش ہوتی سفر میں، وہ یہ کہے:  آگاہ رہو! نماز اپنے گھروں میں پڑھو۔

سنن أبي داود (1/ 279):

"عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: نَادَى ابْنُ عُمَرَ بِالصَّلَاةِ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ نَادَى: أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، قَالَ فِيهِ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ الْمُنَادِيَ فَيُنَادِي بِالصَّلَاةِ، ثُمَّ يُنَادِي أَنْ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ، وَفِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ» ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ فِيهِ: فِي السَّفَرِ فِي اللَّيْلَةِ الْقَرَّةِ، أَوِ الْمَطِيرَةِ."

ترجمہ :  حضرت نافع  ؓ  سے روایت ہے کہ ابن عمر  ؓ  نے مقام ضجنان میں اذان دی پھر پکارا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ٹھکانوں میں،  پھر حدیث بیان کی کہ سفر میں بارش یا سردی کی راتوں میں حضور ﷺ  مؤذن کو حکم فرماتے ،  وہ پہلے اذان دیتا،  پھر اذان کے بعد  کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ٹھکانوں پر۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں