بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک لاکھ چالیس ہزار انبیاء کا ذکر


سوال

 کیا یہ بات اور حوالہ درست ہے کہ ایک لاکھ چالیس ہزار انبیاءکا ذکر قادیانیوں کی مشہور کتاب براہین احمدیہ میں ذکر ہے؟  (براہین احمدیہ /چہارم حصص/ اسی طرح روحانی خزائن جلد نمبر چارصفحہ نمبر :598/حاشیہ در حاشیہ نمبر: 3) ۔

جواب

ایک لاکھ چالیس ہزار انبیاء کا ذکر  مذکورہ کتب براہینِ احمدیہ اور روحانی خزائن میں تتبع وتلاش کے بعد بھی نہیں ملا۔

لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ انبیاء کی تعداد کے سلسلے میں مختلف روایات ہے، بعض میں آٹھ ہزار کا ذکر ہے اور بعض میں چار ہزار کا ذکر ہے، اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش ہیں، تاہم اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام کی تعداد کی تحدید نہ کی جائے، تاکہ کسی غیرنبی کا نبی بنانا اور کسی نبی کا انبیاء کرام کی فہرست سے نکالنا لازم نہ آجائے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ قادیانی لوگ، نبی آخر الزماں محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے منکر ہونے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج اور مرتد و زندیق ہیں، یہ فرقہ اہلِ اسلام کوکافر گردانتا ہے، لہذا تمام مکاتبِ فکر کا متفقہ فتوی ہے کہ اس فرقہ سے کسی قسم کا تعلق رکھنا شرعاً و اخلاقاً جائز نہیں۔

نیز کسی بھی کتاب کا مطالعہ غیر محسوس طریقے سے انسان کو اپنی جانب مائل کرتا ہے اور بسااوقات انسان اس سے متاثر ہوجاتا ہے جس کا اثر آدمی کے اعمال وافکار پرظاہر ہوتاہے،فرقِ باطلہ کی کتب کا مطالعہ ان کے باطل نظریات سے آگاہی اور ان کی تردید کے لیے فقط ان لوگوں کو کرنے کی اجازت ہے جو اپنے ایمان ونظریات کے اعتبار سے پختہ اور علم میں رسوخ و مہارت رکھتے ہوں، ہر فرد کے لیے فرقِ باطلہ کی کتب کا کسی بھی حوالے سے مطالعہ یا استفادہ خطرہ کا باعث بن سکتاہے، نیز قادیانیوں کا حکم دوسرے کفار سے مختلف اور شدید ہے، اور ایسے اہلِ باطل کی مفید کتابیں بھی دیکھنے سے ضررہوتا ہے، لہذا ان کی کتابوں کے مطالعہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔

جامع البيان عن تأويل آي القرآن(تفسیرالطبری) میں ہے:

"القول في تأويل قوله تعالى: {ولقد أرسلنا رسلا من قبلك منهم من قصصنا عليك ومنهم من لم نقصص عليك وما كان لرسول أن يأتي بآية إلا بإذن الله فإذا جاء أمر الله قضي بالحق وخسر هنالك المبطلون} [غافر: 78] يقول تعالى ذكره لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم: {ولقد أرسلنا} [الأنعام: 42] يا محمد {رسلا من قبلك} [الرعد: 38] إلى أممها {منهم من قصصنا عليك} [غافر: 78] يقول: من أولئك الذين أرسلنا إلى أممهم من قصصنا عليك نبأهم {ومنهم من لم نقصص عليك} [غافر: 78] نبأهم. 

وذكر عن أنس أنهم ثمانية آلاف، ذکر الروایۃ بذلک:

أنس بن مالك، قال: «بعث النبي صلى الله عليه وسلم بعد ثمانية آلاف من الأنبياء، منهم أربعة آلاف من بني إسرائيل»

حدثنا أبو كريب، قال: ثنا يونس، عن عتبة بن عتيبة البصري العبدي، عن أبي سهل، عن وهب بن عبد الله بن كعب بن سور الأزدي، عن سلمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «بعث الله أربعة آلاف نبي»".

(سورۃ الغافر، رقم الآیۃ:78، ج:20، ص:367، ط:دارالہجر)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(قال أبو ذر: قلت؟ يا رسول الله كم وفاء عدة الأنبياء) ؟ أي كم كمال عددهم (قال: " مائة ألف وأربعة وعشرون ألفا، الرسل من ذلك ثلاثمائة وخمسة عشر جما غفيرا ") . العدد في هذا الحديث وإن كان مجزوما به، لكنه ليس بمقطوع، فيجب الإيمان بالأنبياء والرسل مجملا من غير حصر في عدد، لئلا يخرج أحد منهم، ولا يدخل أحد من غيرهم فيهم".

(کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ، باب بدء الخلق وذکر الانبیاء، ج:9، ص:3670، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں