بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الحیات آف کمپنیز میں انویسٹمنٹ کا حکم


سوال

 "الحیات آف کمپنیز" نام کی ایک رجسٹرڈ کمپنی ہے پاکستان میں، کمپنی پراپرٹی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی،کنسٹرکشن، ڈائریفارم ، رینٹ اے کار وغیرہ میں شراکت کے لئے انویسٹمنٹ لیتی ہے اور اسں پر 40٪ منافع اپنے انویسٹرز میں تقسیم کرتی ہے۔مثال کے طور پر وہ اپنی کمپنی میں 1 لاکھ انویسٹمنٹ کرنے پر 7٪منافع اور 7٪ آپ کی جمع کرائی گئی رقم آپ کو ہر مہینے واپس کرتی ہے۔ اور یہ 7+7=14٪ یعنی تقریبا 14000 سے 16000 کے درمیان رہتی ہے۔ 14000 بھی ہو سکتی ہے 15600 بھی ہو سکتی ہے یا 14000 سے نیچے بھی آ سکتی ہے،مقصد ان کاآپ کی رقم آپ کو ڈبل کر کے واپس کرنا ہے چاہے 14 مہینے لگے یا 16 مہینے۔ تو کیا اس کمپنی کے ساتھ انویسٹمنٹ کرنا جائز ہے یا حرام؟

اس کے علاوہ اگر آپ کی وجہ سے کوئی اور شخص کمپنی میں انویسٹ کرتا ہے تو آپ کو اس کا کمیشن ملتا ہے کیا یہ حرام ہو گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں ذکر کردہ ادارے میں انویسٹمنٹ کر  نا اور اس سے نفع کمانا  درج ذیل وجوہات کی بنا پر نا جائز ہے:

1):۔ سوال میں مذکور طریقہ کار میں یہ بات واضح ہے کہ انویسٹمنٹ  کی ہوئی رقم سے ہی  ادا کی جاتی ہے جو کہ نا جائز ہے ، جب کہ شرعی اعتبار سے درست صورت یہ ہوتی ہے کہ جائز طریقہ سے جو کاروبار کیا جاتا ہے،اور اس میں جو نفع ہوتا ہے اس نفع کی فیصد متعین کی جائے  ،سرمایہ کا فیصد مقرر نہ کیا جائے۔

2):۔ نفع  اور نقصان دونوں میں شریک ہونا ضروری ہے یہاں صرف نفع دینے کاذکرہے ،وہ بھی ٹھیک طریقے سے نہیں ،نقصان کا تو سرے سے  ذکر ہی نہیں۔

3):۔چونکہ کمپنی کا اپنا کام درست  نہیں ہے اس لئے اس میں  کسی کو انویسٹ کرا کر اس کا کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہے، اس طرح آگے تین سلسلوں تک کمیشن لینا بھی شرعا ناجائز ہے ۔

شعب الإيمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."

(التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء، ج:2، ص:84، ط:دار الكتب العلمية)

شرح المشكاة للطيبی"میں ہے:

"قوله: ((مبرور)) أي ‌مقبول ‌في ‌الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج:7، ص:2112، ط:مكتبة نزار مصطفى الباز)

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا والمکر والخداع في النّار."

(کتاب البیوع، باب الغش، ج:4، ص:139، ط: دار الفکر، بیروت)

فتاوی شامی   میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن ‌الحقوق ‌المجردة كحق الشفعة."

(كتاب البيوع، مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، ج:4، ص:518، ط: سعيد)

  فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع."

(كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، ج: 2، ص: 301، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں