بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

الحیات گروپ آف کمپنیز کمپنی کے بارے شرعی حکم


سوال

 میرا سوال فتویٰ نمبر 144504101719 کے بارے میں ہے، کیا الحیات گروپ آف کمپنیز کے ساتھ اس شرط پہ انویسٹ کی جا سکتی ہے کہ صرف نفع لیا جائے اور کیپیٹل اماونٹ ان کے پاس ہی رہے؟

جواب

  اگر مذکورہ کمپنی  غیر شرعی شرائط کو ختم کرکے اسلامی نقطہ نظر سے کام شروع کردے،اور جس کاروبار میں آپ کا پیسہ لگائے  وہ کاروبار شرعاً جائز بھی ہو، اور اس میں تمام شرعی  شرائط کی رعایت بھی کی جاتی ہو،تو اس کمپنی  کے ساتھ انویسٹمنٹ کی گنجائش ہوگی، بصورت دیگر اس کے ساتھ انویسٹمنٹ کرنا جائز نہیں ، اورمذکورہ کمپنی سے نفع لینا بھی حلال نہیں  ۔

جہاں تک  فتویٰ نمبر 144504101719 کی بات ہے،اس میں عدم جواز کی   چند وجوہات بیان کی گئی تھیں ،جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:

1):۔ سوال میں مذکور طریقہ کار میں یہ بات واضح ہے کہ انویسٹمنٹ  کی ہوئی رقم یعنی سرمایہ  سے ہی نفع   کی  ادائیگی  کی جاتی ہے جو کہ نا جائز ہے ، جب کہ شرعی اعتبار سے درست صورت یہ ہوتی ہے کہ نفع   کی  ادائیگی   سرمایہ کی بجائے کاروبار سے حاصل شدہ منافع (فی صد  کےحساب )سے ہو۔

2):۔ نفع  اور نقصان دونوں میں شریک ہونا ضروری ہے، یہاں صرف نفع دینے کاذکرہے ،وہ بھی ٹھیک طریقے سے نہیں ،نقصان کا تو سرے سے  ذکر ہی نہیں۔

3):۔چونکہ کمپنی کا اپنا کام درست  نہیں ہے، اس لئے اس میں  کسی کو انویسٹ کرا کر اس کا کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہے، اس طرح آگے تین سلسلوں تک کمیشن لینا بھی شرعا ناجائز ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ  الحیات گروپ آف کمپنیز کے ساتھ انویسٹ اس صورت میں  کی جا سکتی ہے کہ جب  تمام شرعی  شرائط کی رعایت  کی جاتی ہو  ،لہذا اس کمپنی کے معاملات اور معاہدے کی تفصیل ارسال کر کے اس کے متعلق تفصیلی حتمی جواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: من اشترى ثوبا بعشرة دراهم ‌وفيه ‌درهم ‌حرام لم يقبل الله له صلاة ما دام عليه ثم أدخل أصبعيه في أذنيه وقال صمتا إن لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم سمعته يقوله. رواه أحمد والبيهقي في شعب الإيمان."

(باب الكسب وطلب الحلال، ج:2، ص: 849، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمه:" حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مثلا ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان میں ایک درہم بھی حرام مال کا ہو تو اللہ تعالی اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہو گا ،اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی( شہادت کی )دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو ۔"

(مظاہر حق، ج:3، ص:53، ط: دارالاشاعت)

شعب الإيمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."

(التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء، ج:2، ص:84، ط:دار الكتب العلمية)

شرح المشكاة للطيبی" میں ہے:

"قوله: ((مبرور)) أي ‌مقبول ‌في ‌الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج:7، ص:2112، ط:مكتبة نزار مصطفى الباز)

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا والمکر والخداع في النّار."

(کتاب البیوع، باب الغش، ج:4، ص:139، ط: دار الفکر، بیروت)

فتاوی شامی   میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن ‌الحقوق ‌المجردة كحق الشفعة."

(كتاب البيوع، مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، ج:4، ص:518، ط: سعيد)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا عرف هذا فنقول: إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويًا أو متفاضلًا، فلا شكّ أنه يجوز و يكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما و الوضيعة على قدر المالين متساويًا و متفاضلًا؛ لأنّ الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:  62 ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں