میری بیٹی سے گاڑی کا حادثہ ہو گیا ،اور اس میں دو انسانی جانیں چلی گئیں ،تو شرعًا ہمارے لیے اس کے ازالے کی کیا صورت ہے؟
گاڑی تیز رفتاری سے چلا رہی تھی ،اور موٹر سائیکل کو پیچھے سے مارا ،جس میں دو افراد ایک مرد اور ایک خاتون سوار تھے ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بیٹی کی جانب سےگاڑی کے حادثے میں دو انسانی جانیں چلی گئی ہیں تو مذکورہ قتل قتلِ خطا ہے، اور قتلِ خطاء کی صورت میں قاتلہ پر شرعاً، کفارہ اور دیت لازم ہے۔
كفاره اور دیت کی تفصیل یہ ہے کہ :قاتلہ پر بطورِ کفارہ دو ماہ کے لگاتار روزے لازم ہیں ،اس لیے کہ جب جنایت ایک ہی جنس سے ہو تو کفارہ میں تداخل ہو جاتا ہے،یعنی ایک ہی کفارہ متعدد قتل میں کافی شمار ہوتا ہے۔
اور دیت یہ ہے کہ قاتلہ کے ''عاقلہ'' مقتولین کے ورثاء کو تین سال کی مدت میں جان کابدلہ دیں گے؛ تاکہ ایک باقیمت جان بے قیمت ہونے سے بچ جائے ، (عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ قاتلہ کا تناصر یعنی باہمی تعاون کا تعلق ہو )۔
دیت کی مقدار اونٹ کے اعتبار سے سو اونٹ (ایک سالہ بیس اونٹنیاں اور ایک سالہ بیس اونٹ، دو سالہ بیس اونٹنیاں، تین سالہ بیس اونٹنیاں، چار سالہ بیس اونٹنیاں) ، درہم کے اعتبار سے دس ہزار درہم،اور دینار کے حساب سے ایک ہزار دینار ہے۔
درہم کا اندازہ موجودہ وزن کے اعتبار سے 30.618 کلو گرام چاندی یا اس کی موجودہ قیمت ،اور دینار کا اندازہ موجودہ وزن کے اعتبار سے 4.374 کلو گرام سونا یا اس کی موجودہ قیمت ہے،یہ مرد کی دیت ہے،عورت کی دیت مرد کے مقابلہ میں آدھی ہوتی ہے۔
قاتل کو ان انواع میں سے اختیار ہے جس سے چاہے دیت ادا کردے اور اگر قاضی ان انواع میں سے کوئی نوع متعین کر دے تو بھی نافذ العمل ہوگا،نیز اگر فریقین باہمی رضامندی سے اس سے کم پر صلح کر لیتے تو یہ بھی جائز ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ ایک مرد اور ایک عورت حادثے کا شکار ہوئی ہے ،اس لیےعاقلہ پر ایک پوری دیت اور ایک آدھی دیت لازم ہے،جب کہ کفارے میں تداخل ہوسکتا ہے؛ اس لیے قاتلہ پر دو ماہ ہی کے لگاتار روزے لازم ہیں ۔
نیز سائل کی بیٹی اللہ کے حضور صدقِ دل سے توبہ واستغفار بھی کرے۔
ذکر کردہ جواب سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق ہے،البتہ اگر حقیقی صورتِ حال اس سے مختلف ہو تو اس کے مطابق جواب میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) الثالث (خطأ وهو) نوعان: لأنه إما خطأ في ظن الفاعل ك (أن يرمي شخصا ظنه صيدا أو حربيا) أو مرتدا (فإذا هو مسلم أو) خطأ في نفس الفعل كأن يرمي (غرضا) أو صيدا (فأصاب آدميا) أو رمى غرضا فأصابه ثم رجع عنه أو تجاوز عنه إلى ما وراءه فأصاب رجلا أو قصد رجلا فأصاب غيره أو أراد يد رجل فأصاب عنق غيره، ولو عنقه فعمد قطعا أو أراد رجلا فأصاب حائطا ثم رجع السهم فأصاب الرجل فهو خطأ؛ لأنه أخطأ في إصابة الحائط ورجوعه سبب آخر والحكم يضاف لآخر أسبابه ابن كمال عن المحيط. قال: وكذا لو سقط من يده خشبة أو لبنة فقتل رجلا يتحقق الخطأ في الفعل ولا قصد فيه ۔۔۔(وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة ۔"
(کتاب الجنایات،ج:6،ص:531،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و كل دية وجبت بنفس القتل يقضى من ثلاثة أشياء في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - من الإبل و الذهب و الفضة، كذا في شرح الطحاوي. قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: من الإبل مائة، و من العين ألف دينار، و من الورق عشرة آلاف، و للقاتل الخيار يؤدي أي نوع شاء، كذا في محيط السرخسي. ثم لاتجب الإبل كلها من سن واحد بل من أسنان مختلفة، ففي الخطأ المحض تجب المائة أخماسًا: عشرون ابنة مخاض، و عشرون ابن مخاض، و عشرون ابنة لبون، و عشرون حقةً، و عشرون جذعةً ... و دية المرأة في نفسها، و ما دونها نصف دية الرجل."
(کتاب الجنایات،الباب الثامن فی الدیات،ج:6،ص:24،ط:رشیدیہ)
وفیہ ایضاً:
"و كل دية وجبت بنفس القتل في الخطأ أو شبه عمد أو عمد دخله شبهة، فهو في ثلاث سنين على من وجب عليه في كل سنة الثلث، و كذلك من أقر بقتل خطأ كانت الدية في ماله في ثلاث سنين."
(کتاب الجنایات ،ج:6،ص:87،ط:رشیدیہ)
الدر المختار ميں هے:
"(و إن لم يكن) القاتل (من أهل الديوان فعاقلته قبيلته) وأقاربه وكل من يتناصر هو به."
(كتاب المعاقل، ج:6،ص:642،ط:سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"و أفاد أن كل الأنواع أصول و عليه أصحابنا و أن التعين بالرضا أو القضاء و عليه عمل القضاة و قيل للقاتل، ذكره القهستاني اهـ وتمامه في المنح."
(کتاب الدیات،ج:6،ص:574،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فالكفارتان الواجبتان لا يخلو.(أما) إن وجبتا بسببين من جنسين مختلفين وأما إن وجبتا بسببين من جنس واحد؛ (فإن) وجبتا بسببين من جنسين مختلفين كالقتل والظهار فأعتق رقبة واحدة ينوي عنهما جميعا لا يجوز عن إحداهما بلا خلاف بين أصحابنا، وعند الشافعي - رحمه الله - يجوز، (وإن) وجبتا بسببين من جنس واحد كظهارين أو قتلين يجوز عن إحداهما عند أصحابنا الثلاثة - رحمهم الله - استحسانا۔"
(کتاب الکفارات، ج:5،ص:99،سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"فأما إذا اصطلحا قبل القضاء والرضا إن اصطلحا على مال فرض في الدية إن كان المصالح عليه أكثر من الدية فإنه لا يجوز، وإن كان يدا بيد وإن وقع الصلح على أقل من عشرة آلاف درهم، أو على أقل من ألف دينار، أو على أقل من مائة من الإبل فإنه يجوز نسيئة كان أو يدا بيد، وإن وقع الصلح على جنس آخر لم يفرض في الدية، فإن كان نسيئة لا يجوز وإن كان عينا جاز هكذا في المحيط."
(کتاب الجنایات، الباب السادس فی صلح و العفو، ج:6،ص:20،ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101594
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن