بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اكثر نمازوں میں غیر حاضر رہنے والے امام کی تنخواہ کا حکم


سوال

ایک سرکاری ادارے  کی مسجد میں سرکاری اِمام صاحب پانچ وقت کی نماز کے لیے اِمام مقرر  ہیں۔لیکن یہ امام صاحب کبھی کبھی صرف ظہر کی نماز پڑھانے آتے ہیں اور جمعہ کی نماز پڑھاتے ہیں بس۔کیا مذکورہ بالا امام کے پیچھے  نماز پڑھنا درست ہے اور  کیا اس امام کا تنخواہ لینا درست ہے؟

جواب

سرکار سے تنحواہ  لینے والا  امام  شرعًا سرکار کا ملازم ہے، اور  یہ عقدِ ملازمت  کام (یعنی نمازپڑھانے )  کی انجام دہی پر  ہے،  ملازم  جب  اپنا  مفوضہ  کام  پورا  نہیں کرتا تو  وہ پوری  تنحواہ  کا مستحق نہیں  بنتا۔

 

     لہذا اگر واقعی سوال میں ذکر کردہ  اِمام صاحب صرف ظہر اور  جمعہ پڑھانے آتے ہیں، باقی نمازوں میں بلاعذر اور بلااجازت  غائب رہتے ہیں، اور نہ ان نمازوں کے  لیے اپنے کسی نائب کا  انتطام کرتے ہیں، تو ایسی صورت میں وہ اپنا مفوّضہ کام  پورا نہ کرنے کی وجہ سے پوری  تنحواہ کے حق دار نہیں ہیں، اس لیے ان کا پوری تنخواہ لینا شرعًا  جائز نہیں ہوگا۔  البته ان کے  پیچھے  نماز  جائز  ہے۔

 

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"فإن وقعت على عمل معلوم فلاتجب الأجرة إلا بإتمام العمل إذا كان العمل مما لايصلح أوله إلا بآخره، و إن كان يصلح أوله دون آخره فتجب الأجرة بمقدار ما عمل."

(«کتاب الاجارة»«ولا يجوز في الاجارة من الاحكام» (2/ 559) ط۔ دار الفرقان / مؤسسة الرسالة،سنة النشر 1404 = 1984)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"و ليس للخاص أن يعمل لغيره، و لو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل."

(«کتاب الاجارة» « باب ضمان الأجير» (6/ 70)،ط۔ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:                 

"لأن ما يأخذه من الأجرة بمقابلة العمل."

(«کتاب الزکاة» « مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء» (2/ 265)،ط۔ سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وحاصله أن النائب لا يستحق من الوقف شيئًا؛ لأن الاستحقاق بالتقرير لم يوجد، ويستحق الأصيل الكل إن عمل أكثر السنة، وسكت عما يعينه الأصيل للنائب كل شهر في مقابلة عمله هل يستحقه النائب عليه أو لا؟ والظاهر أنه يستحقه لأنها إجارة وقد وفى العمل بناء على قول المتأخرين المفتى به من جواز الاستئجار على الإمامة والتدريس وتعليم القرآن، وعلى هذا إذا لم يعمل الأصيل وعمل النائب كانت الوظيفة شاغرة ولايجوز للناظر الصرف إلى واحد منهما ويجوز للقاضي عزله وعمل الناس بالقاهرة على جواز الاستنابات في الوظائف وعدم اعتبارها شاغرة مع وجود النيابة".

"ثم رأيت في الخلاصة من كتاب القضاء أن الإمام يجوز استخلافه بلا إذن بخلاف القاضي وعلى هذا لا تكون وظيفته شاغرة وتصح النيابة"۔

(«كتاب الوقف» «الناظر بالشرط في الوقف» (5/ 254)ط. دار الكتاب الإسلامي)

وفیہ ایضًا:

"أما الصحة فمبنية على وجود الأهلية للصلاة مع أداء الأركان وهما موجودان من غير نقص في الشرائط والأركان ومن السنة حديث: «صلوا خلف كل بر وفاجر» ، وفي صحيح البخاري: أن ابن عمر كان يصلي خلف الحجاج و كفى به فاسقًا كما قاله الشافعي، و قال المصنف: إنه أفسق أهل زمانه."

( کتاب الصلاة، باب الامامة (1/ 369)، ط. دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں