بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اِکراہ کا معنی اور اس کی قسمیں


سوال

اِکراہ کا معنی اور اس کی قسمیں کیا ہیں؟

جواب

اکراہ کی  تعریف: اگر کسی شخص کوجان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دے کرکسی کام  کے کرنے پر مجبور کیا جائے اوراس شخص کو  اس بات کا خوف(غالب گمان) بھی ہو کہ دھمکی دینے والا وہ کام کر بھی سکتا ہے ،تو اس کو شرعی  اکراہ کہتے ہے۔

اس کی دو قسمیں ہیں:

1)اِکراہ تام:

اِکراہ تام مار ڈالنے یا عضو کاٹنے یا ضرب شدید(جس سے جان یا عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو) کی دھمکی دی جائے مثلاً کوئی کسی سے کہتا ہے کہ یہ کام کر، ورنہ تجھے ماردوں گا یا مارتے مارتے بیکار کر دوں گا، اس کواکراہ ملجی بھی کہتے ہیں۔

2)اکراہ ناقص:

اِکراہ ناقِص جس میں اس(مار ڈالنے یا عضو کاٹنے یا ضرب شدید)سے کم کی دھمکی ہو مثلاًپانچ جوتے ماروں گا یا پانچ کوڑے ماروں گا یا مکان میں بند کر دوں گا یا ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دوں گااس کواکراہ غیر ملجی بھی کہتے ہیں ۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(‌هو ‌لغة: ‌حمل ‌الإنسان ‌على) ‌شئ ‌يكرهه.

‌وشرعا: (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان: تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح، وإلا فناقص وهو غير الملجئ."

(كتاب الاكراه، ج:6، ص:128،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(كتاب الإكراه).

" أما تفسيره في الشرع: فهو اسم لفعل يفعله المرء بغيره فينتفي به رضاه، كذا في الكافي( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" .

(كتاب ‌الإكراه ،الباب الأول في تفسير ‌الإكراه وأنواعه وشروطه وحكمه،ج:5، ص:35، ط:دارالفکر)

البحر الرائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وشرطه قدرة المكره على تحقيق ما هدد به سلطانا كان أو لصا أو خوف المكره وقوع ما هدد به) يعني شرط الإكراه الذي هو فعل كما تقدم؛ لأن الإكراه اسم لفعل يفعله الإنسان بغيره فينتفي به رضاه أو يفسد به اختياره مع بقاء الأهلية ولا يتحقق ذلك إلا من القادر عند خوف المكره؛ لأنه يصير به ملجئا وبدون ذلك لا يصير ملجئا وما روي عن الإمام أن الإكراه لا يتحقق إلا من السلطان فذلك محمول على ما شهد في زمانه من أن القدرة والمنعة منحصرة في السلطان وفي زمانهما كان لكل مفسد له قوة ومنعة لفساد الزمان فأفتيا على ما شهدا وبه يفتى؛ لأنه ليس فيه اختلاف يظهر في حق الحجة وفي المحيط وصفة المكره وهو أن يغلب على ظنه أنه يوقع ذلك به لو لم يفعل، ولو شك أنه لا يفعل ما توعد به لم يكن مكرها؛ لأن غلبة الظن معتبرة عند فقد الأدلة اهـ."

(کتاب الإکراہ،شرط الإکراہ،ج:8، ص:80، ط:دار الکتاب الإسلامی)

مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

"قال صدر الشريعة في التنقيح وهو إما ‌ملجئ بأن يكون بفوت النفس أو العضو وهذا معدم للرضى مفسد للاختيار وإما ‌غير ‌ملجئ بأن يكون بحبس أو قيد أو ضرب وهذا معدم للرضى ‌غير مفسد للاختيار."

(كتاب الاکراہ، ج:2، ص:429، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں