بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اخوت فاؤنڈیشن میں کام کرنے اور تنخواہ لینے کا حکم


سوال

ایک صاحب جو کہ اس اخوت فاؤنڈیشن میں کام کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ کنسٹرکشن کے لیے 500,000 (پانچ لاکھ) قرضہ دینے پر 112,000 روپے مختلف پروسس کی مد میں اضافی وصول کیے جاتے ہیں، مثلا پیپر فائل کی مد میں، ڈیتھ انشورنس کی مد میں وغیرہ وغیرہ۔ وہ صاحب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ سود یا قمار وغیرہ ہے(کیوں کہ جامعہ کے فتوی کے مطابق یہ ادارہ بھی سودی معاملات پر مشتمل ہے) تو کیا میرا وہاں کام کرنااور تنخواہ لینا جائز ہو گا ؟

جواب

آپ نے مذکورہ ادارے سے قرض کے معاہدے کی تفصیل نہیں لکھی، تاہم ہمارے پاس اس ضمن میں اب تک جو سوالات آئے ہیں، ان کے مطابق ایک سائل نے یہ بتایا کہ اخوت ایک ویلفئیر ادارہ ہے، جو تیس ہزار قرضہ دیتا ہے، جس کی واپسی تیس ہزار ہی کرنا ہوتی ہے، لیکن 500 روپے ایڈوانس بھی لیتا ہے،  جس میں سے 150 روپے کاغذات کی فیس کے لیے اور باقی ڈیتھ انشورنس ہے کہ اگر کوئی مرجائے تو اس کا قرضہ معاف ہوگا، یہی ڈیتھ انشورنس والی رقم وہ قرضہ قسط ختم ہونے کے بعد بھی واپس نہیں دیتے۔ اسی طرح آپ نے بھی سوال میں یہ بات ذکر کی ہے کہ پانچ لاکھ قرضہ دینے کی صورت میں بھی کچھ رقم ڈیتھ انشورنس کی مد میں کاٹتے ہیں،اس تفصیل  کے مطابق مذکورہ ادارہ سے قرضہ لینا شرعاً جائز نہیں ہو گا؛ کیوں کہ انشورنس کی مد میں جو رقم کاٹی جاتی ہے شرعاً یہ سود اور جوئے کا مجموعہ ہے جو حرام اور ناجائز ہے  اور ناجائز شروط سے مشروط ہونے کی وجہ سے یہ قرضہ لینا بھی ناجائز ہو گا۔  مذکورہ ادارے کے قرضہ دینے کا طریقہ کار انشورنس کی شرط کے ساتھ مقید ہونے کی وجہ سے گویا سود اور جوئے کا مجموعہ ہے ، اس لیے اس ادارے میں کام کرنا  اور تنخواہ  لینا  جائز نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 403):

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں