بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اختلافِ مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟


سوال

گزشتہ 30 شعبان کو سعودیہ میں روزہ تھا، ہمارے ہاں پشاور میں بھی چاند دیکھنے کے شواھد ملے، لیکن سرکاری اعلان نہیں ہوا، اس اختلاف کی کیا حقیقت ہے؟ اور مختلف علاقوں میں چاند دیکھنے، روزہ رکھنے یا عید کا کیا حکم ہے؟

جواب

شرعی اعتبار سے روزہ رکھنے کا مدار چاند دیکھنے پر ہے، احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی تلقین فرمائی ہے کہ تم چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی عید کی جائے،اور چاند کے مطالع طلوع ہونے کی جگہیں مختلف علاقوں میں الگ الگ ہوتے ہیں، لہذا یہ ممکن ہے کہ ایک علاقہ میں چاند نظر آجائے،جبکہ دیگرعلاقوں میں دکھائی نہ دےدوسری بات یہ ہے کہ جب کسی ملک میں رویتِ ہلال کمیٹی مقرر ہو، جس کو سرکاری طور پر چاند ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کا اختیار ہو تو شرعی اعتبار سے اسی کمیٹی کا فیصلہ معتبر ہوتا ہے،، لہذا کسی علاقے میں چاند نظر آجائے تو وہاں کے لوگ کمیٹی یا اس کے نمائندے کے سامنے شرعی شہادت پیش کریں،اور مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پابندی کریں۔خلاصہ یہ کہ موجودہ صورتِ حال میں جو اختلاف ہر سال سامنے آتا ہے۔ اس میں پشاور ودیگر علاقوں سمیت پورے ملک کے لوگوں پر مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلے کی پابندی لازم ہے۔یہ مسئلہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اگر کسی شخص نے خود چاند دیکھا ہو اور اس کی گواہی بھی دی ہو، لیکن کسی بنا پر اس کی گوہی قبول نہ کی گئی ہو تو اپنی ذات کی حد تک وہ شخص احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے عمل کرے گا، چنانچہ اگر رمضان کا چاند ہو تو وہ خود روزہ رکھے گا اگرچہ کمیٹی کی طرف سے اعلان نہ ہوا ہو، البتہ عید کے چاند کی صورت میں وہ احتیاط پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھے اور تمام لوگوں کے ساتھ ہی عید کرے۔ واللہ وعلم۔


فتوی نمبر : 143509200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں