بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اخبارات میں آیات قرآنی اور مقدس اسماء ہونے کی صورت میں ان کا زمین پر گرنا اور ان کی حفاظت کا طریقہ


سوال

 ہماری دکان پر اخبار آتا صرف اس مقصد سے کہ اس کی مدد ہو جائے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اخبار پر جگہ  جگہ اللہ اور آپ ﷺ کا نام لکھا ہوتا ہے اور اخبار نیچے بھی گرتا ہے اور پاؤں میں بھی آتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر یہ معلوم ہو کہ اَخبار میں  قرآنی آیات یا اللہ  تعالی یا اس کے رسول ﷺ کا نام مبارک ہے تو  اس کو اَدب سے رکھنا اور بے ادبی سے بچانا واجب ہے،  لہذا   ایسے اخبارات کو استعمال کرنے کے بعد ان میں سے  قرآنی آیات اور  مقدس اَسماء کو  نکال کر باقی اخبارات کو دنیاوی کاموں میں استعمال کرنا جائز ہے، اور ان مقدس اَوراق کا حکم یہ ہے :

1۔  اُن کو کسی محفوظ مقام پر پاک کپڑے میں ڈال کر دفن کردیا جائے، یہی بہتر اور مذکورہ اشیاء کی توہین سے حفاظت کرنے کا احسن طریق ہے۔ (اگر عام آدمی کے لیے یہ مشکل ہو تو وہ جن مقامات پر مقدس اَوراق کے ڈبے رکھے ہوتے ہیں، ان ڈبوں میں ان کو رکھ دے۔)

2۔ مقدس اَوراق  اگر دُھل سکتے ہوں تو حروف کو دھو کر ان کا پانی کسی کنویں یا ٹینکی یا کسی ایسی جگہ بہا دیں جہاں کسی قسم کی نجاست نہ پہنچے۔

 3۔ مقدس اَوراق کو کسی تھیلی میں ڈال کر اس میں  وزنی پتھر وغیرہ ڈال کر   دریا یا سمندر یا کنویں میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔

4۔ وہ تمام اَشیاء جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقدس نام ہوں، یا قرآنی آیات ہوں، ان اشیاء سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے مقدس ناموں اور آیتوں کو مٹا یاجائے، پھر ان کو کسی بھی دنیاوی کام کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:

اوراق مقدسہ کی حکم اور حفاظت کا طریقہ اس کی بے حرمتی کرنے والے کا حکم

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذلك نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل‘‘.     

 (فتاویٰ شامی،ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں