بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اخف الضررین کو اختیار کرنے کا حکم


سوال

أخف الضررین کو اختیار کرنا صحیح دلیل سے ثابت کریں۔

جواب

واضح رہے کہ جب کسی انسان کو دو مختلف خلافِ شرع آزمائشوں کا سامنا ہو، تو اگر وہ دونوں آزمائشیں حکم کے اعتبارسے برابر ہوں، تو ان دونوں میں سے جس کو چاہے، اختیار کرلے، اور اس پر عمل کرلے، البتہ اگر دونوں آزمائشیں حکم کے اعتبار سے الگ الگ ہوں، یعنی ایک آزمائش حکم کے اعتبار سے دوسری آزمائش سے سخت ہو تو پھر اس صورت میں شریعت نے انسان کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ ان دونوں میں سے أخف(ہلکی آزمائش) کو اختیار کرے، اور ا س پر عمل کرے، اور اشد(سخت آزمائش) کو چھوڑدے۔

مثلاً ایک زخمی آدمی ہے، اگر وہ سجدہ کرے گا، تو زخم سے خون بہہ جائے گا، اور وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر سجدہ نہیں کرے گا، تو نماز نہیں ہوگی؛ کیوں کہ سجدہ نماز کے فرائض میں سے ہے، تو اس صورت میں شریعت نےایسے شخص کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے، اور رکوع، سجدہ اشارہ سے ادا کرے۔

اسی طرح اگر کوئی بہت بوڑھا شخص جو نماز کی حالت میں کھڑے ہوکر قراءت کرنے پر قادر نہ ہو، لیکن بیٹھ کر قراءت کرسکتاہو، تو اس صورت میں اگر کھڑے ہوکر نماز پڑھے گا، تو قراءت رہ جائے گی، اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھے گا، تو پھر قیام کی فضیلت رہ جائے گی، تو اس صورت میں شریعت نے یہ اجازت دی ہے کہ مذکورہ ضعیف آدمی بیٹھ کر نماز ادا کرے ، اور قراءت نہ چھوڑے۔

الأشباہ والنظائرمیں ہے:

"إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا بارتكاب أخفهما.

قال الزيلعي في باب شروط الصلاة: ثم الأصل في جنس هذه المسائل أن من ابتلي ببليتين، وهما متساويتان يأخذ بأيتهما شاء، وإن اختلفا يختار أهونهما؛ لأن مباشرة الحرام لا تجوز إلا للضرورة ولا ضرورة في حق الزيادة.

مثاله: رجل عليه جرح لو سجد سال جرحه، وإن لم يسجد لم يسل، فإنه يصلي قاعدا يومئ بالركوع والسجود؛ لأن ترك السجود أهون من الصلاة مع الحدث.

ألا ترى أن ترك السجود جائز حالة الاختيار في التطوع على الدابة، ومع الحدث لا يجوز بحال.

وكذا شيخ لا يقدر على القراءة قائما ويقدر عليها قاعدا، يصلي قاعدا؛ لأنه يجوز حالة الاختيار في النفل ولا يجوز ترك القراءة بحال، ولو صلى في الفصلين قائما مع الحدث، وترك القراءة لم يجز."

(الفن الأول، القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، الرابعة: إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا بارتكاب أخفهما، ص:76، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں