بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انفرادی تراویح پڑھنا


سوال

اگر مجبور ہوں تو تراویح اکیلے کیسے پڑھیں،  نیز اگر دوران ڈیوٹی آ دھی تراویح جماعت سے اور آدھی انفرادی پڑھنی ہو تو رات کو کب اور کیسے پڑھیں ؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں با جماعت تراویح ادا کرنا سنتِ  مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے تمام  مسلمانوں نے مسجد میں تراویح کی جماعت  کو ترک کردیا تو پورا محلہ  گناہ گار ہوگا، اور گھروں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر تراویح ادا کرنے والے بھی ثواب سے محروم ہوں گے، البتہ اگر محلہ کی مسجد میں باجماعت تراویح  ادا کی جا رہی ہو تو مسجد آباد رکھنے کی سنت علی الکفایہ اہلِ محلہ کی طرف سے ادا ہوجائے گی، اس صورت میں باقی لوگ اپنے اپنے گھروں میں با جماعت تراویح کا اہتمام کریں تو  کرسکتے ہیں، نیز اگر کوئی کسی  واقعی عذر کے سبب گھر میں تنہا تراویح پڑھنے کا اہتمام کرتا ہے تو  کر سکتا ہے۔اور انفرادی تراویح کا وہی طریقہ کار ہوگا جو دو رکعت سنت کا ہوتا ہے البتہ نیت تراویح کی کی جائے گی،مزیدیہ کہ اگر آدھی تراویح یعنی دس رکعات جماعت سے پڑھ لی تو بقیہ دس رکعات صبح صادق سے پہلے پہلے کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہیں، باقی اتنی تاخیر مناسب نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(فَصْلٌ) :

وَأَمَّا سُنَنُهَا فَمِنْهَا الْجَمَاعَةُ وَالْمَسْجِدُ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْرَ مَا صَلَّى مِنْ التَّرَاوِيحِ صَلَّى بِجَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَكَذَا الصَّحَابَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - صَلَّوْهَا بِجَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَكَانَ أَدَاؤُهَا بِالْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ سُنَّةً، ثُمَّ اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي كَيْفِيَّةِ سُنَّةِ الْجَمَاعَةِ، وَالْمَسْجِدِ، أَنَّهَا سُنَّةُ عَيْنٍ أَمْ سُنَّةُ كِفَايَةٍ؟ قَالَ بَعْضُهُمْ: إنَّهَا سُنَّةٌ عَلَى سَبِيلِ الْكِفَايَةِ إذَا قَامَ بِهَا بَعْضُ أَهْلِ الْمَسْجِدِ فِي الْمَسْجِدِ بِجَمَاعَةٍ سَقَطَ عَنْ الْبَاقِينَ.

وَلَوْ تَرَكَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ كُلُّهُمْ إقَامَتَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِجَمَاعَةٍ فَقَدْ أَسَاءُوا وَأَثِمُوا، وَمَنْ صَلَّاهَا فِي بَيْتِهِ وَحْدَهُ، أَوْ بِجَمَاعَةٍ لَا يَكُونُ لَهُ ثَوَابُ سُنَّةِ التَّرَاوِيحِ لِتَرْكِهِ ثَوَابَ سُنَّةِ الْجَمَاعَةِ وَالْمَسْجِدِ". ( ١ / ٢٨٨)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية،وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ".

(2/ 45، باب الوتروالنوافل، ط: سعید)

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں