فقہی کتابوں میں جو مسئلہ لکھا ہے کہ نماز پڑھاتے وقت امام کا مکمل محراب کے اندر كھڑا ہونا مکروہ ہے، مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر کوئی منفرد (اکیلا نماز پڑھنے والا) فرض یا نفل رات میں یا دن میں کسی وجہ سے محراب کے مکمل اندر جاکر نماز پڑھے تو کیا اس اکیلے نماز پڑھنے والے کی نماز بھی مکروہ ہوگی؟
نوٹ:میرے سوال منفرد کا فرض یا نفل نمازمحراب کے مکمل اندر جاکر نماز پڑھنے سے متعلق ہے،امام سے متعلق نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ ميں امامت کے وقت امام کے لیے محراب کے اندر مکمل طور پر کھڑا ہونامکروہ تنزیہی ہے، لیکن امام کا محراب کے اندر سنت یا نفل پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے، اسی طرح امام کے علاوہ عام آدمی کا قدم سمیت محراب کے اندر کھڑے ہو کر اکیلا فرض نماز یانفل وغیرہ پڑھنے میں بھی مذکورہ بالا کراہت نہیں ہے، البتہ محراب امام کے لیے مختص ہے، اس لیےبغیر اجازت کے امام کی جگہ اس كے مصلٰی پر نماز پڑھنا مناسب نہیں ہے۔
الدرالمختار میں ہے:
"(وقيام الإمام في المحراب لا سجوده فيه) وقدماه خارجة لأن العبرة للقدم (مطلقا) وإن لم يتشبه حال الإمام إن علل بالتشبه وإن بالاشتباه ولا اشتباہ فلا اشتباه في نفي الكراهة".
وفی حاشیتہ لابنِ عابدین:
"...قلت: أي لأن المحراب إنما بني علامة لمحل قيام الإمام ليكون قيامه وسط الصف كما هو السنة، لا لأن يقوم في داخله، فهو وإن كان من بقاع المسجد لكن أشبه مكانا آخر فأورث الكراهة، ولا يخفى حسن هذا الكلام فافهم، لكن تقدم أن التشبه إنما يكره في المذموم وفيما قصد به التشبه لا مطلقا، ولعل هذا من المذموم تأمل. هذا وفي حاشية البحر للرملي: الذي يظهر من كلامهم أنها كراهة تنزيه تأمل اه".
(كتاب الصلاة، باب الاستخلاف، ج:1، ص:645، ط:سعيد)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي مسعود البدري قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "يؤم القوم أقرؤهم لكتاب الله وأقدمهم قراءة، فإن كانوا في القراءة سواء فليؤمهم أقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء فليؤمهم أكبرهم سنا، ولا يؤم الرجل في بيته ولا في سلطانه، ولا يجلس على تكرمته إلا بإذنه" قال شعبة: فقلت لإسماعيل: ما تكرمته؟ قال: فراشه".
(کتاب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامة، ج:1، ص:96، ط:رحمانیه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144402100911
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن