بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اکیلے فرض پڑھنے کے بعد جماعت کرانے کا حکم


سوال

 ایک بندے نے فرض نماز گھر میں پڑھ لی پھر مسجد چلا گیا وہاں امام نہیں تھا، لوگوں نے اس کو نماز پڑھانے  کے لیے آگے کر دیا آیا یہ نماز ہو جائے گی یانہیں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جب فرض نماز گھر میں پڑھ لی اور پھر مسجد آنے کے بعد  لوگوں کو نماز پڑھائی  تو اس شخص کی یہ نماز نفل ہے اور باقی لوگوں کی نماز فرض نماز ہے اور نفل نماز پڑھنے  والے کے پیچھے فرض  والے کی نماز نہیں ہوتی ؛لہذا  جن لوگوں نے اس کی اقتداء میں نماز ادا کی ہے ،ان کی نماز نہیں ہوئی ،اس نماز کی قضاء ان پر لازم ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) لا (مفترض بمتنفل وبمفترض فرضا آخر) لأن اتحاد الصلاتين شرط عندنا. وصح أن معاذا كان يصلي مع النبي  - صلى الله عليه وسلم - نفلا وبقومه فرضا

(قوله وصح أن معاذا إلخ) أي صح عند أئمتنا وترجح، وهو جواب عما استدل به الشافعي على جواز الفرض بالنفل وهو ما في الصحيحين «أن معاذا كان يصلي مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عشاء الآخرة ثم يرجع إلى قومه فيصلي بهم تلك الصلاة» والجواب «أن معاذا لما شكاه قومه قال له - صلى الله عليه وسلم - يا معاذ لا تكن فتانا، إما أن تصلي معي، وإما أن تحفف على قومك» رواه أحمد. قال الحافظ ابن تيمية: فيه دلالة على منع اقتداء المفترض بالمتنفل لأنه يدل على أنه متى صلى معه امتنعت إمامته وبالإجماع لا تمتنع إمامته بصلاة النفل معه، فعلم أن الذي كان يصليه مع النبي - صلى الله عليه وسلم - نفل. اهـ. وقال الإمام القرطبي في المفهم: الحديث يدل على أن صلاة معاذ مع النبي - صلى الله عليه وسلم - كانت نافلة وكانت صلاته بقومه هي الفريضة، وتمامه في حاشية نوح أفندي وفتح القدير".

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ،1،ص:580،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں