بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقلہ بالغہ کا اولیاء کی رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرنے سے متعلق دار الافتاء بنوری ٹاؤن کا فتویٰ


سوال

اگر عاقلہ بالغہ لڑکی از خود اولیاء کی اجازت کے بغیر غیر ِ کفو میں نکاح کر لیتی ہے ، کیا یہ نکاح منعقد ہو جاتا ہے ؟ منسلکہ فتویٰ  جو کہ "ظاہر الروایۃ" کے مطابق ہے ، آپ کے دار الافتاء کی طرف منسوب ہے ، کیا درست ہے ؟ اگر درست ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ جب کہ آج کل دوسرے دارالافتاء" ظاہر الروایۃ "سے ہٹ کر دوسرے قول پر فتوی دیتے ہیں  جیسے فقہاء   نے دوسرے قول پر فتویٰ دینے کی تصریح کی ہے  ، اس بارے میں آپ کے دارالافتاء کا فتوی کیا  ہے ؟ مطلع فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ عاقلہ، بالغہ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر از خود  اگر اپنا نکاح  کفو میں کرتی ہے تو ایسا نکاح احناف کے نزدیک بالاتفاق منعقد اور لازم ہوجاتا ہے، اگرچہ بغیر  عذر کے ایسا کرنا ناپسندیدہ ہے اور اگر ولی کی موجودگی میں عاقلہ ، بالغہ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرتی ہے تو وہ نکاح  بھی شرعاً منعقد ہو جاتا ہے، البتہ  اولیاء کو اعتراض کا حق ہوگا ، اگر  وہ اس نکاح پر رضامند نہ ہوں توان  کو   بچہ  پیدا ہونے سے پہلے تک   عدالت  کے ذریعے نکاح فسخ کروانے کا حق ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے :

"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي)۔"

(کتاب النکاح: 3 /9 ، ط: سعید)

الفتاوى الهندية میں ہے :

"(الباب الخامس في الأكفاء) الكفاءة معتبرة في الرجال للنساء للزوم النكاح...ومنها إسلام الآباء...ومنها الحرية...ومنها الكفاءة في المال...ومنها الديانة...ومنها الحرفة۔"

(كتاب النكاح،الباب الخامس في الأكفاء في النكاح، ط: دارالفكر)

حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

(قوله الكفاءة معتبرة) قالوا معناه معتبرة في اللزوم على الأولياء حتى أن عند عدمها جاز للولي الفسخ. اهـ. فتح وهذا بناء على ظاهر الرواية من أن العقد صحيح، وللولي الاعتراض

(کتاب النکاح، فصل فی الکفاءۃ: 3 / 884، ط: سعید)

الفتاوى الهندية  میں ہے :

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض۔"

(الباب الخامس في الأكفاء في النكاح: 1 / 292، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"وإن تزوجت من غير كفء ففي النفاذ إن كان ضرر بالأولياء وفي عدم النفاذ ضرر بها بإبطال أهليتها، والأصل في الضررين إذا اجتمعا أن يدفعا ما أمكن، وههنا أمكن دفعهما بأن نقول بنفاذ النكاح دفعاً للضرر عنها".

(کتاب النکاح، فصل شرط التقدم الولاية في النكاح: 2 / 249، ط: دار الكتب العلمية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100556

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں