بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکالت کا پیشہ اختیار کرنے حکم


سوال

 کیا وکالت کا شعبہ جائز ہے؟ کیا اس سے جو کمائی ہوگی وہ بھی حلال ہوگی؟ پبلک پراسیکیوٹر یا جج کی نوکری کرنا اس نیت سے کہ انصاف کو قائم کروں گا اور ظلم کے خلاف ڈٹ جاؤں گا،  جائز ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں وکالت  کا پیشہ اختیار کرنے والا کوئی شخص اگر  ناحق کسی شخص کی وکالت نہ کرے، کسی نا حق بات کو ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے، نیز جھوٹ، دھوکا اور رشوت کا سہارا نہ لے تو   وکالت کے پیشہ اختیار کرنے  میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی شخص اس پیشے سے محض پیسے کمانے کے بجائے  احقاقِ حق اور مظلوموں کی مدد کرنے کی نیت کرے تو باعثِ ثواب ہوگا ۔

اسی طرح جج کی نوکری کرنے میں اگر  حق کے مطابق فیصلہ کرنے کی قوت اور صلاحیت موجود ہو نیز یہ    نیت  ہو کہ حق و سچ کے ساتھ کھڑا ہوگا، مظلوموں کی مدد کرے گا تو ایسی صورت میں جج کا پیشہ نہ صرف جائز،  بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہوگا۔ 

فتح القدير  میں ہے: 

"والصواب أن مراد صاحب العناية هو أنه قد يكون في نفس الوكالة التعاوض كما إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة فإنه غير ممنوع شرعا، إذ الوكالة عقد جائز لا يجب على الوكيل إقامتها فيجوز ‌أخذ ‌الأجرة فيها."

(كتاب الوكالة، ج:8، ص:3، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريما (التقلد) أي أخذ القضاء (لمن خاف الحيف) أي الظلم (أو العجز) يكفي أحدهما في الكراهة ابن كمال (وإن تعين له أو أمنه لا) يكره فتح ثم إن انحصر فرض عينا وإلا كفاية بحر."

(كتاب القضاء، ج:5، ص: 367، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں