بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ak tlaqy rajee


سوال

فتوی نمبر1899ساحل اور اسکی وائف نے کورٹ میرج کی ہے ، لڑکی کے گھر والے ہماری شادی کے خلاف تھے،نکاح کے بعد ہم نے اپنی شادی کو حلال کیا اور اپنے اپنے گھر آ گئے کہ اب گھر والوں کو منا لیں گے، تا کہ انکی بھی عزت خراب نہ ہو ،مگر ہوا الٹا ،لڑکی کے گھر میں پتا لگتے ہی میرا اس کے ساتھ 6 مہینے تک رابطہ ختم ہو گیا اور وہ لوگ مجھے دھمکیا ں دینے لگے کہ طلاق دو،لڑکی میرے ساتھ ہے، میرے ساتھ آنا چا ہتی ہے مگر 20 اکتوبر کو وہ لوگ لڑکی کو ڈرا دھمکا کر لائے طلاق کروانے کے لئے ،اور آ کر مجھے اتنا مجبور کیا اور زبردستی مجھ سے اتنا کہلوا لیا lsquolsquoمیری طرف سے طلاق ہےrsquorsquo جس کی نہ میری نیّت تھی نہ میری وائف کی، کیوں کہ ہماری شادی پسند کی ہے ،میری وائف بھی پیچھے سے سر ہلاتی رہی کہ طلاق نہ ہونے پائے، اس لئے میں نے اس صورتحال سے نکلنے اور جان بچانے کے لئے اس قسم کے الفاظ کا استعمال کیا، اب آپ اسلام کی روشنی میں اس کا حل بتایئے، سر پلیز ہم دونوں میاں بیوی رابطے میں ہیں اور لڑکی یہی کہتی ہے کہ میں طلاق نہیں مانتی،یہ جبر ہے اور اسلام میں جبر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اعمال کا دارومدار نیّت پر ہے۔ میں نے یہ نازیبا الفاظ اپنی زبان سے ادا کئے اس وقت میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی تھی،میں ایک مسلمان ہوں، اس پورے مضمون میں میں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا ہے ۔اب آپ اسلام کی روح سے اس کا جواب مجھے دیں تا کہ میں اس چیپٹر کو کورٹ میں چیلنج کر سکوں۔

جواب

جواب:۱۔نیزڈرانے دھمکانے اورزبردستی طلاق کی صورت میں جب انسان زبان سے الفاظ ادا کردے توبہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ جبرکی کوئی بھی صورت ہو۔۲۔لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے محض دھمکی اورڈرانے دھمکانے پربیوی کی موجودگی میں جوالفاظ استعمال کئے ہیں کہ ''میری طرف سے طلاق ہے''یہ الفاظ طلاق کے وقوع میں صاف اورواضح ہیں نیت کے محتاج نہیں ۔اگرایک مرتبہ یہ الفاظ اداکئے ہیں توان سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے۔ اگرعدت تین ماہواریاں نہیں گزریں توسائل زبانی یعنی زبان سے کہہ میں نے رجوع کیایاعملی یعنی بوسہ لینا،ملاپ وغیرہ سے رجوع کرسکتاہے،اوراگرعدت گزرچکی ہے توعورت جداہوچکی ہے ۔ نکاح ختم ہوچکاہے ۔دوبارہ تجدیدنکاح کرکے میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔رجوع یاتجدیدنکاح دونوں صورتوں میں سائل کو آئندہ دوطلاق کاحق باقی رہے گا۔۱حدیث شریف میں ہےعن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:ثلاث جدھن جدوھزلھن جد،النکاح والطلاق والرجعۃ۔[مشکوۃ،باب الخلع والطلاق،ص:284،ط:قدیمی]فتاویٰ شامی میں ہے صریحہ مالم یستعمل الافیہ،أی غالباً کمایفید کلام البحر،وعرفہ فی التحریر بمایثبت حکمہ الشرعی بلانیۃ۔۔۔۔لأن رکن الطلاق اللفظ أومایقوم مقامہ مماذکر۔[فتاوی شامی،ج:3،ص:247،باب الصریح،ط:سعید]بدائع الصنائع میں ہے:سمی ھذا النوع صریحا۔۔۔وھذہ الالفاظ ظاھرۃ المراد،لأنھالاتستعمل الافی الطلاقعن قیدالنکاح ،فلایحتاج فیھاالی النیۃ لوقوع الطلاق،اذاالنیۃ عملھا فی تعیین المبھم ولاابھام فیھا۔[بدائع الصنائع،2222،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت]ایک حدیث میں ہے:حضرت صفوان بن عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص سویاہواتھااس کی بیوی چھری لے کراس کے سینے پرچڑھ گئی اور کہا: یامجھے تین طلاق دو ورنہ تجھے ذبح کردوں گی۔اس شخص نے طلاق دے دی۔پھرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوااورساراواقعہ بیان کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''اب طلاق سے رجوع اورواپسی نہیں ہوسکتی۔[مرقاۃ المفاتیح،6/288۔اعلاء السنن،11/177ط:ادارۃ القرآن کراچی]


فتوی نمبر : 143604200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں