بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سے زائد مشائخ سے بیعتِ اصلاح کا حکم


سوال

کیا ایک سے زائد صاحبِ نسبت بزرگ سے بیعتِ  اصلاح کر سکتے ہیں ؟

جواب

اگر پہلے شیخ حیات ہوں، ان سے رابطہ و استفادہ میں کوئی مانع نہ ہو ،متبعِ سنت بھی ہوں اور اپنے مریدین کی اصلاح و ارشاد میں مخلصانہ طور پر مشغول ہوں تو بلاوجہ دوسرے مرشد کی طرف رجوع اچھا نہیں ہے۔ تاہم درج ذیل وجوہات میں سے کوئی وجہ ہو تو ایک شیخ و مرشد سے بیعت ہونے کے بعد دوسرے مرشد سے بیعت کی جاسکتی ہے،  اور اس کے  لیے پہلے مرشد کی اجازت لازم نہیں:

1- مرشدِ اول کا انتقال ہوجائے۔ 

2-  اگر مرشدِ اول کو غیر متبعِ  شرع پائے۔

3- شیخ تو کامل ہو، لیکن رابطہ نہ ہو، یا طویل عرصہ رابطہ نہ ہوتاہو، (خواہ مسافت دور ہونے کی وجہ سے یا کسی اور مانع کی وجہ سے)۔

4- شیخ تو کامل ہے، لیکن کسی وجہ سے اس سے فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (7 / 436):

"وَفِيهِ مَسْأَلَةُ رَجُلٍ مِنْ الصُّوفِيَّةِ، أَخَذَ الْعَهْدَ عَلَى رَجُلٍ، ثُمَّ اخْتَارَ الرَّجُلُ شَيْخًا آخَرَ وَأَخَذَ عَلَيْهِ الْعَهْدَ، فَهَلْ الْعَهْدُ الْأَوَّلُ لَازِمٌ أَمْ الثَّانِي؟ الْجَوَابُ: لَايَلْزَمُهُ الْعَهْدُ الْأَوَّلُ وَلَا الثَّانِي وَلَا أَصْلَ لِذَلِكَ".

شریعت و طریقت میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:

’’اگر کوئی شخص ایک شیخ کی خدمت میں خوش اعتقادی کے ساتھ ایک معتد بہ مدت تک رہے، مگر اس کی صحبت میں کچھ تاثیر نہ پائے تو اسے چاہیے کہ دوسری جگہ اپنا مقصود تلاش کرے، کیوں کہ مقصود خدا تعالی ہے نہ کہ شیخ، لیکن شیخِ اول سے بد اعتقاد نہ ہو، ممکن ہے کہ وہ کامل مکمل ہو، مگر اس کا حصہ وہاں نہ تھا، اسی طرح شیخ کا انتقال قبل حصول مقصود کے ہوجائے یا ملاقات کی امید نہ ہو جب بھی دوسری جگہ تلاش کرے اور یہ خیال نہ کر ے کہ قبر سے فیض لینا کافی ہے، دوسرے شیخ کی کیا ضرورت ہے، کیوں کہ قبر سے فیضِ تعلیم نہیں ہوسکتا، البتہ صاحبِ نسبت کو احوال کی ترقی ہوتی ہے، سو یہ شخص ابھی محتاجِ تعلیم ہے، ورنہ کسی کو بھی بیعت کی ضرورت نہ ہوتی، لاکھوں قبریں کاملین بلکہ انبیاء کی موجود ہیں اور بلا ضرورت محض ہوسنا کی سے کئی کئی جگہ بیعت کرنا بہت برا ہے، اس سے بیعت کی برکت جاتی رہتی ہے، اور شیخ کا قلب مکدر ہو جاتا ہے، اور نسبت قطع ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ہرجائی مشہور ہوجاتا ہے۔‘‘

(شریعت و طریقت ص ۴۹۰)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں