بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا انبیاءِ کرام علیہم السلام سے گناہ کا صدور ہوتا ہے؟ مکاشفۃ القلوب کی ایک روایت کی تحقیق


سوال

"مکاشفہ القلوب"  کے مطالعہ کے دوران ایک روایت پڑھی  کہ:

" ایک نبی سے کوئی گناہ ہوگیا، اللہ نے وحی کی کہ اگر تو دوبارہ کرے گا تو میں عذاب دوں گا، اس نے کہا :اے رب !تو تو ہے اور میں میں ہوں، اگر تو مجھ کو نہیں بچاۓ گا تو میں دوبارہ کروں گا، پس اللہ نے اس کو بچا لیا۔"

( مکاشفتہ القلوب، مطبوعہ المیزان ،اردو ترجمہ) 

اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ انبیاءِ  کرام علیہم السلام تو معصوم ہوتے ہیں، اگر اس روایت کی رو سے ایسا ہوجائے پھر تو وہ معصوم نہیں رہے؟ کیا انبیاءِ  کرام  ہر قسم  کے گناہ سے پاک نہیں ہوتے؟  اگر ہوتے ہیں تو پھر اس روایت کا کیا مطلب ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ مکاشفۃ القلوب ،حدیث کی کتاب نہیں ہے،  اس کتاب میں موجود روایات کا مستند و معتمد ہونا ضروری نہیں ۔ 

نیز جس روایت کاآپ نے ذکر کیا ہے وہ "یروی"کے ساتھ مذکور ہے، اس روایت کی سند مذکور نہیں ۔ تلاش کے باوجود ہمیں کسی مستند کتاب میں یہ روایت نہیں مل سکی۔

البتہ یہاں اس بات کا سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ بسااوقات انبیاء کے بلند ترین مقام کے اعتبار سے خلافِ اولیٰ کسی عمل کو بھی "ذنب" یعنی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقتاً وہ عمل گنا ہ نہیں ہوتا، اسے صوفیاء کی اصطلاح میں "حسنات الأبرار سیئات المقربین"سے تعبیر کیا جاتا ہے؛ اس لیے اگر یہ واقعہ درست ہے تو اس کا بے غبار مطلب یہی ہے کہ جسے "ذنب"یعنی گناہ کہا جارہا ہے وہ عام افراد کے اعتبار سے کوئی گناہ کا عمل نہ ہو، نہ ہی اس پر شریعت میں پکڑ ہو، البتہ انبیاء کے اعلیٰ و ارفع مرتبے کے لحاظ سے وہ عنداللہ "ذنب"شمار ہوتا ہو، اس لیے اسے "ذنب" سے تعبیر کیا گیا، جیسا کہ قرآنِ  کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعےمیں "وعصیٰ آدم" کے الفاظ مذکور ہوئے ہیں۔اس لیے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے متعلق جمہور علماء کایہی مؤقف ہے کہ وہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا صدور نہیں ہوتا۔

چناں چہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں سورہ بقرہ آیت 35 کے ذیل میں لکھتے ہیں :

"مسئلہ عصمت انبیاء علیہم السلام :

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو کسی خاص درخت کے کھانے سے منع فرمایا گیا تھا اور اس پر بھی متنبہ کردیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گناہ میں مبتلا کردے، اس کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام نے اس درخت سے کھالیا جو بظاہر گناہ ہے، حال آں کہ انبیاء علیہم السلام گناہ سے معصوم ہوتے ہیں، تحقیق یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت تمام گناہوں سے عقلًا اور نقلًا ثابت ہے،  ائمہ اربعہ اور جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء علیہم السلام تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں، اور بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ صغیرہ گناہ ان سے بھی سرزد ہوسکتے ہیں، جمہور اُمت کے نزدیک صحیح نہیں۔(قرطبی)۔

وجہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو لوگوں کا مقتدا بنا کر بھیجا جاتا ہے، اگر ان میں سے بھی کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف خواہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ صادر ہوسکے تو انبیاء کے اقول وافعال سے امن اٹھ جائے گا اور وہ قابلِ اعتماد نہیں رہیں گے جب انبیاء علیہم السلام ہی پر اعتماد واطمینان نہ رہے تو دین کا کہاں ٹھکانہ ہے۔

البتہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات میں متعدد انبیاء علیہم السلام کے متعلق ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب بھی ہوا، حضرت آدم علیہ السلام کا یہ قصہ بھی اسی میں داخل ہے۔

ایسے واقعات کا حاصل باتفاقِ امت یہ ہے کہ کسی غلط فہمی یا خطا ونسیان کی وجہ سے ان کا صدور ہوجاتا،کوئی پیغمبر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف عمل نہیں کرتا،  غلطی اجتہادی ہوتی ہے یا خطا و نسیان کے سبب  قابل معافی ہوتی ہے،  جس کو اصطلاحِ  شرع میں گناہ نہیں کہا جاسکتا اور  یہ سہو  و نسیان  کی غلطی ان سے ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتی جن کا تعلق تبلیغ وتعلیم اور تشریع سے ہو، بلکہ ان سے ذاتی افعال اور اعمال میں ایسا سہو ونسیان ہوسکتا ہے ۔(تفسیر بحرا لمحیط ) 

مگر چوں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کا مقام نہایت بلند ہے اور بڑوں سے چھوٹی سی غلطی بھی ہوجائے تو بہت بڑی غلطی سجھی جاتی ہے؛ اس لیے قرآنِ حکیم میں ایسے واقعات کو معصیت اور گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر عتاب بھی کیا گیا ہے اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ گناہ ہی نہیں ۔"

تفسير القرطبي - (1 / 30):

"الثانية عشرة- واختلف العلماء في هذا الباب هل وقع من الأنبياء صلوات الله عليهم أجمعين صغائر من الذنوب يؤاخذون بها ويعاتبون عليها أم لا -بعد اتفاقهم على أنهم معصومون من الكبائر ومن كل رذيلة فيها شين ونقص إجماعا عند القاضي أبي بكر، وعند الأستاذ أبي إسحاق أن ذلك مقتضى دليل المعجزة، و عند المعتزلة أن ذلك مقتضى دليل العقل على أصولهم-، فقال الطبري وغيره من الفقهاء والمتكلمين والمحدثين: تقع الصغائر منهم. خلافًا للرافضة حيث قالوا: إنهم معصومون من جميع ذلك، واحتجوا بما وقع من ذلك في التنزيل وثبت من تنصلهم من ذلك في الحديث، وهذا ظاهر لا خفاء فيه. و قال جمهور من الفقهاء من أصحاب مالك و أبي حنيفة و الشافعي: إنهم معصومون من الصغائر كلها كعصمتهم من الكبائر أجمعها، لأنا أمرنا باتباعهم في أفعالهم وآثارهم وسيرهم أمرا مطلقا من غير التزام قرينة، فلو جوزنا عليهم الصغائر لم يمكن الاقتداء بهم، إذ ليس كل فعل من أفعالهم يتميز مقصده من القربة والإباحة أو الحظر أو المعصية، ولا يصح أن يؤمر المرء بامتثال أمر لعله معصية، لا سيما على من يرى تقديم الفعل على القول إذا تعارضا من الأصوليين. قال  الأستاذ أبو إسحاق الاسفرايني: واختلفوا في الصغائر، والذي عليه الأكثر أن ذلك غير جائز عليهم، وصار بعضهم إلى تجويزها، ولا أصل لهذه المقالة. وقال بعض المتأخرين ممن ذهب إلى القول الأول: الذي ينبغي أن يقال إن الله تعالى قد أخبر بوقوع ذنوب من بعضهم ونسبها إليهم وعاتبهم عليها، وأخبروا بها عن نفوسهم وتنصلوا منها وأشفقوا منها وتابوا، وكل ذلك ورد في مواضع كثيرة لا يقبل التأويل جملتها وإن قبل ذلك آحادها، وكل ذلك مما لا يزري بمناصبهم، وإنما تلك الأمور التي وقعت منهم على جهة الندور وعلى جهة الخطأ والنسيان، أو تأويل دعا إلى ذلك فهي بالنسبة إلى غيرهم حسنات وفي حقهم سيئات، [بالنسبة] إلى مناصبهم وعلو أقدارهم، إذ قد يؤاخذ الوزير بما يثاب عليه السائس، فأشفقوا من ذلك في موقف القيامة مع علمهم بالأمن والأمان والسلامة. قال: وهذا هو الحق. ولقد أحسن الجنيد حيث قال: حسنات الأبرار سيئات المقربين. فهم صلوات الله وسلامه عليهم وإن كان قد شهدت النصوص بوقوع ذنوب منهم فلم يخل ذلك بمناصبهم ولا قدح في رتبهم، بل قد تلافاهم واجتباهم وهداهم ومدحهم وزكاهم و اختارهم و اصطفاهم، صلوات الله عليهم وسلامه."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144301200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں