بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک رکعت وتر کا حکم/ فرض اور واجب میں فرق


سوال

1: ايک رکعت وتر کے بارے ميں تفصیل بیان کر دیں، اہل تشیّع کا اس بارے میں کیا عمل ہے اور کیا یہ واجب ہے؟

2: واجب اور فرض میں کیا فرق ہے؟

جواب

 1:سائل وتر کے بارے میں کیا پوچھنا چاہتا ہے، وضاحت سے لکھے۔ باقی اہل تشیع کا کیا عمل ہے؟ اس کے بارے میں انہیں سے معلوم کرلیا جائے۔

2: عمل کے اعتبار سے فرض اور واجب   دونوں برابر  ہیں کہ دونوں پر عمل کرنا لازم ہے، لیکن اعتقاد  کے اعتبار سےدونوں میں فرق ہے، فرض کا منکر کافر ہے اور واجب کا منکر کافر نہیں ہوتا، کیوں کہ فرض کا ثبوت "دلیلِ قطعی" یعنی اس کا ثبوت قرآن کریم کی کسی واضح آیت یا متواتر حدیث سے ہوتا ہے اور واجب کا ثبوت "دلیلِ ظنّی" سے ہوتا ہے۔

فتاویٰ شامی (ردّالمحتار)میں ہے:

"واعلم أن الفرض نوعان: فرض عملا وعلما، وفرض عملا فقط. فالأول كالصلوات الخمس فإنها فرض من جهة العمل لا يحل تركها ويفوت الجواز بفوتها؛ بمعنى أنه لو ترك واحدة منها لا يصح فعل ما بعدها قبل قضاء المتروكة، وفرض من جهة العلم والاعتقاد؛ بمعنى أنه يفترض عليه اعتقادها حتى يكفر بإنكارها والثاني كالوتر لأنه فرض عملا كما ذكرناه وليس بفرض علما: أي لا يفترض اعتقاده، حتى إنه لا يكفر منكره لظنية دليله وشبهة الاختلاف فيه، ولذا يسمى واجبا؛ ونظيره مسح ربع الرأس، فإن الدليل القطعي أفاد أصل المسح. وأما كونه قدر الربع فإنه ظني، لكنه قام عند المجتهد ما رجح دليله الظني حتى صار قريبا من القطعي فسماه فرضا أي عمليا، بمعنى أنه يلزم عمله، حتى لو تركه ومسح شعرة مثلا يفوت الجواز به وليس فرضا علما، حتى لو أنكره لا يكفر بخلاف ما لو أنكر أصل المسح.

وبه علم أن الواجب نوعان أيضا لأنه كما يطلق على هذا الفرض الغير القطعي يطلق على ما هو دونه في العمل وفوق السنة وهو ما لا يفوت الجواز بفوته كقراءة الفاتحة، وقنوت الوتر وتكبيرات العيدين، وأكثر الواجبات من كل ما يجبر بسجود السهو. وقد يطلق الواجب أيضا على الفرض القطعي كما قدمناه عن التلويح في بحث فرائض الوضوء فراجعه".

(کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:03، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں