بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سورۃ النور آیت:32 کی تشریح


سوال

اللہ تعالیٰ نکاح   کی طاقت سے تمہیں غنی کردےگا، یہ آیت اگر قرآن  میں ہےیا حدیث ہے تو  بتادیجیے گا!

جواب

نکاح کے فوائد اور منافع میں سے ایک فائدہ اہم  یہ بھی ہے کہ نکاح کے ذریعے اللہ تعالی انسان کو غنی کردیتا ہے۔

جیسا کہ سورۃ النور میں ہے:

"وَ اَنْکِحُوا الْاَیَامٰى مِنْکُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآئِکُمْ  اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ  وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ"

 ترجمہ:" اور تم میں (یعنی احرار میں) جو بےنکاح ہوں تم ان کا نکاح کردیا کرو اور (اسی طرح) تمہارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو (نکاح) کے لائق ہوں اس کا بھی․ اگر وہ لوگ مفلس ہوں گے تو خدا تعالیٰ (اگر چاہے گا) ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا  اور اللہ تعالیٰ وسعت والا اور خوب جاننے والا ہے۔ "

(سورۃ النور : رقم الآیۃ:32، ترجمہ: بیان القرآن)

اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ:اس میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لیے بشارت ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لیے نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر وسائل مالیہ ان کے پاس نہیں کہ جب وہ اپنے  دین کی حفاظت اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کرنے کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرما دیں گے اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے جن کے پاس ایسے غریب لوگ نکاح کا رشتہ  لے کر جائیں تو وہ محض ان کے فی الحال تنگ دست ہونے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کردیں۔ مال آنے جانے والی چیز ہے اصل چیز صلاحیت عمل ہے اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح سے انکار نہ کریں۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اس میں آزاد اور غلام سب کو داخل فرمایا ہے اور نکاح کرنے پر ان سے غنا کا وعدہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر) اور ابن ابی حاتم نے حضرت صدیق اکبر سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ غناء عطا فرمانے کا کیا ہے وہ پورا فرما دیں گے پھر یہ آیت پڑھی۔اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاء يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تم غنی ہونا چاہتے ہو تو نکاح کرلو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے  اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاء يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۔(ماخوذ از معارف القرآن لمفتی شفیع العثمانیؒ)

الجامع لاحکام القرآن (تفسیرالقرطبی) میں ہے:

"قوله تعالى: (اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ) رجع الكلام إلى الأحرار، أي لا تمتنعوا عن التزويج بسبب فقر الرجل والمرأة،" إن يكونوا فقراء يغنهم الله من فضله". وهذا وعد بالغنى للمتزوجين طلب رضا الله واعتصاما من معاصيه. وقال ابن مسعود: التمسوا الغنى في النكاح، وتلا هذه الآية. وقال عمر رضي الله عنه: عجبي ممن لا يطلب الغنى في النكاح، وقد قال الله تعالى:" إن يكونوا فقراء يغنهم الله من فضله". وروي هذا المعنى عن ابن عباس رضي الله عنهما أيضا. ومن حديث أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (ثلاثة كلهم حق على الله عونه المجاهد في سبيل الله والناكح يريد العفاف والمكاتب يريد الأداء). أخرجه ابن ماجه في سننه. فإن قيل: فقد نجد الناكح لا يستغني، قلنا: لا يلزم أن يكون هذا على الدوام، بل لو كان في لحظة واحدة لصدق الوعد. وقد قيل: يغنيه، أي يغني النفس. وفي الصحيح (ليس الغنى عن كثرة العرض «1» إنما الغنى غنى النفس). وقد قيل: ليس وعدا لا يقع فيه خلف، بل المعنى أن المال غاد ورائح، فارجوا الغنى. وقيل: المعنى يغنيهم الله من فضله إن شاء، كقوله تعالى:" فيكشف ما تدعون إليه إن شاء"  [الانعام: 41]، وقال تعالى:" يبسط الرزق لمن يشاء" «2» [الشورى: 12]. وقيل: المعنى إن يكونوا فقراء إلى النكاح يغنهم الله بالحلال ليتعففوا عن الزنى. السابعة- هذه الآية دليل على تزويج الفقير، ولا يقول كيف أتزوج وليس لي مال، فإن رزقه على الله. وقد زوج النبي صلى الله عليه وسلم المرأة التي أتته تهب له نفسها لمن ليس له إلا إزار واحد، وليس لها بعد ذلك فسخ النكاح بالإعسار لأنها دخلت عليه، وإنما يكون ذلك إذا دخلت على اليسار فخرج معسرا، أو طرأ الإعسار بعد ذلك، لأن الجوع لا صبر عليه، قاله علماؤنا. وقال النقاش: هذه الآية حجة على من قال: إن القاضي يفرق بين الزوجين إذا كان الزوج فقيرا لا يقدر على النفقة، لأن الله تعالى قال:" يغنهم الله" ولم يقل يفرق. وهذا انتزاع ضعيف، وليس هذه الآية حكما فيمن عجز عن النفقة، وإنما هي وعد بالإغناء لمن تزوج فقيرا. فأما من تزوج موسرا وأعسر بالنفقة فإنه يفرق بينهما، قال الله تعالى:" وإن يتفرقا يغن الله كلا من سعته"  [النساء: 130]. ونفحات الله تعالى مأمولة في كل حال موعود بها".

(سورۃ النور، رقم الآیۃ:32، ج:12، ص:242، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں