بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہزار کی آبادی پر مشتمل گاؤں میں جمعہ و عیدین کی ادائیگی کا حکم


سوال

ضلع بونیر چغرزی یونین کونسل پاندیڑ میں ایک ’’شاہی ‘‘کے نام سے موسوم گاؤں ہے ۔ اس گاؤں کی کل آبادی تقریباً 80 گھرانوں پر مشتمل ہے ، مذکورہ گاؤں میں کل بالغ افراد کی تعداد 900 سے 1000 تک ہے ، اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ پنجگانہ نماز میں 6 سے لے کر 8 افراد تک  بمشکل آتے ہیں۔ جب کہ فجر اور عشاء میں دو سے تین لوگ آتے ہیں، عیدین کے دن 60یا 80تک لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں، اس گاؤں میں ایک پرائمری اسکول بھی ہے ، اس کے علاوہ نہ اس میں ہسپتال ہے ، نہ ڈاک خانہ اور نہ کوئی سرکاری ادارہ ، اس میں تین دکانیں بھی ہیں، مگر روز مرہ کی ضرورت اس سے پوری نہیں ہوتی، بعض اشیاء جیسے چائے ، چینی ، مصالحہ اور فروٹ بمشکل ملتے ہیں، اس کے علاوہ ضروریات کی اشیاء میسر نہیں ۔ یہاں کچی سڑک ہے ، جس پر گاڑیوں کی آمد و رفت بہت کم ہے ۔ سڑک خراب ہونے کے علاوہ گلی کوچے بھی کچے ہیں۔بعض گلیاں پختہ ہیں مگر نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تو کیا مذکورہ گاؤں میں نماز جمعہ اور عیدین پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں :

۱۔ شہر یا اس کا فنا(مضافات) ،یاقصبہ (بڑا گاؤں)ہونا۔۲۔  ظہر کا وقت ہونا۔۳۔  ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔۴۔ جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین بالغ مردوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا۔۵۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔

مذکورہ شرائط میں ’’بڑے گاؤں ‘‘سے  مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔ ایسے گاؤں میں جمعہ کےدن باجماعت ظہرکی نماز پڑھی جائے گی۔

البتہ اگر کسی جگہ اقامتِ  جمعہ  کی شرائط موجود نہ ہونے کے باوجود پہلے سے جمعہ  کی جماعت ہوتی چلی آرہی ہو اور اب اسے بند کروانے سے شدید فتنے کا اندیشہ ہو تو  فتنہ اور انتشار سے بچنے کے لیے  اس کو   روکا نہ جائے ، لیکن ایسی کسی جگہ  پر  جمعہ  کی نئی جماعت قائم نہ کی جائے ۔

لہذا اگر سوال میں ذکر کردہ گاؤں ’’شاہی ‘‘میں مذکورہ شرائط نہیں پائی جاتیں اور اس گاؤں کی مجموعی آبادی بھی تقریباًمحض ایک ہزار نفوس پر مشتمل ہے ،اور روزمرہ کی ضروریات بھی مکمل دستیاب نہیں ، تو وہاں جمعہ  اور عیدین کا قیام درست نہیں۔لیکن اگر سالہا سال سے وہاں جمعہ کی نماز ہورہی ہو اور جمعہ کی نماز  ختم کرنے میں اگر واقعۃ فتنا وفساد اور  انتشار کا خدشہ ہو تو اسے ختم نہ کیا جائے ،البتہ اس گاؤں میں مزید کسی مقام پر جمعہ کی نما زکے لیے نئی جماعت قائم نہ کی جائے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"گاؤں میں جمعہ کا صحیح ہونا یا نہ ہونا مجتہدین میں مختلف فیہ ہے، حنفیہ کے نزدیک جوازِ جمعہ کے لیے مصر ہونا شرط ہے، لیکن مصر کی تعریف میں اختلاف عظیم ہے، تاہم جس مقام میں کہ زمانہ قدیم سے جمعہ قائم ہے وہاں جمعہ کو ترک کرانے میں جو مفاسد ہیں وہ ان مفاسد سے بدرجہا زیادہ سخت ہیں جو سائل نےجمعہ پڑھنے کی صورت میں ذکر کیے ہیں، جو لوگ جمعہ کو جائز سمجھ کر جمعہ پڑھتے ہیں ان کا فرض ادا ہو جاتا ہے، نفل کی جماعت یا جہربقرأت نفل نہار یا ترک فرض لازم نہیں آتا۔محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ."

(کتاب الصلاۃ،ج:3ص:231،ط:دارالاشاعت)

فتاوی شامی  میں ہے:

"ویشترط لصحتها المصر وہو ما لا یسع اکبر مساجدہ اہلہ المکلفین بها أو فناءه وهو ما اتصل به لأجل مصالحه."

( کتاب الصلوۃ  ،باب الجمعة ،ج:2،ص:138،، ط:سعید)

فتح القدیر للکمال ابن الہمام میں ہے:

"لاتصح الجمعة إلا في مصر جامع ، أو في مصلى المصر ، و لاتجوز في القرى؛ لقوله عليه الصلاة والسلام:  لا جمعة و لا تشريق و لا فطر و لا أضحى إلا في مصر جامع } و المصر الجامع : كل موضع له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود، و هذا عند أبي يوسف رحمه الله، و عنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم، و الأول اختيار الكرخي و هو الظاهر، و الثاني اختيار الثلجي، و الحكم غير مقصور على المصلى بل تجوز في جميع أفنية المصر؛ لأنها بمنزلته في حوائج أهله.

(قوله: و هو الظاهر) أي من المذهب. و قال أبو حنيفة : المصر بلدة فيها سكك وأسواق وبها رساتيق ووال ينصف المظلوم من الظالم وعالم يرجع إليه في الحوادث، و هذا أخص مما اختاره المصنف، قيل: و هو الأصح، و إذا كان القاضي يفتي و يقيم الحدود أغنى من التعدد : و قد وقع شك في بعض قرى مصر مما ليس فيها وال و قاض نازلان بها، بل لها قاض يسمى قاضي الناحية وهو قاض يولى الكورة بأصلها فيأتي القرية أحيانا فيفصل ما اجتمع فيها من التعلقات وينصرف ووال كذلك ، هل هو مصر نظرًا إلى أن لها واليًا و قاضيًا أو لا نظرا إلى عدمها منهما؟والذي يظهر اعتبار كونهما مقيمين بها وإلا لم تكن قرية أصلا ، إذ كل قرية مشمولة بحكم.وقد يفرق بالفرق بين قرية لا يأتيها حاكم يفصل بها الخصومات حتى يحتاجون إلى دخول مصر في كل حادثة لفصلها ، وبين ما يأتيها فيفصل فيها ، وإذا اشتبه على الإنسان ذلك ينبغي أن يصلي أربعا بعد الجمعة ينوي بها آخر فرض أدركت وقته ولم أؤده بعد ، فإن لم تصح الجمعة وقعت ظهره وإن صحت كانت نفلا ، وهل تنوب عن سنة الجمعة ؟ قدمنا الكلام في باب شروط الصلاة فارجع إليه ."

(کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:3،  ص:202، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے :

"فأما إذا لم يكن إماما بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي ‌أنه ‌لا ‌بأس ‌أن ‌يجمع ‌الناس على رجل حتى يصلي بهم الجمعة، وهكذا روي عن محمد ذكره في العيون؛ لما روي عن عثمان - رضي الله عنه - أنه لما حوصر قدم الناس عليا - رضي الله عنه - فصلى بهم الجمعة".

(ج:1،ص:261،ط:دارالکتب العلمیہ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں