بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث: دین کی خاطر مجھے جتنا ڈرایااور ستایا گیا کسی اور نبی نہیں ڈرایا گیا ستایا گیا؛ کی تشریح


سوال

میں نے بیان میں یہ حدیث سنائی  کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  دین کی خاطر مجھے جتنا ڈرایا گیا ستایا گیا کسی اور نبی کو نہیں ڈرایا گیا ستایا گیا ۔

پھر میں نے اس کی تشریح میں یہ بات کہی کہ ذہنی اعتبار سے سارے نبیوں کی تکلیف ایک طرف اور ہمارے نبی کی تکلیف ایک طرف تو ہمارے نبی کی تکلیف بڑھ جائے گی،  جیسے:  ام سلمہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایا : غزوہ خندق میں اللہ کے رسول کو جتنی تکلیف پہنچی کسی اور غزوہ میں نہیں پہنچی ، حال آں کہ غزوہ احد میں تو آپ کے دانت شہید ہوئے،   ستر صحابہ شہید ہوئے اور جسمانی اعتبار سے سارے نبیوں کی تکلیف ایک طرف اور ہمارے نبی کی تکلیف ایک طرف تو ہمارے نبی کی تکلیف سے نہیں بڑھے  گی ۔

یہ تشریح میں نے صحیح کی ہے یا غلط ؟   عام طور پر  مقررین حضرات  بغیر تشریح کے یوں کہہ دیتے ہیں کہ سارے نبیوں کی تکلیف ایک طرف اور ہمارے نبی کی تکلیف ایک طرف تو ہمارے نبی کی تکلیف بڑھ جائے گی تو بعض ناواقف لوگوں کو اعتراض ہو جاتا ہے اور کہتے ہیں ایسا  کیسے ہو سکتا ہے ، جب کہ کسی نبی  کو تو آرے سے کاٹ دیا گیا، کسی نبی کو قتل کر دیا گیا تو  پھر سارے نبیوں کی تکلیف سے ہمارے نبی کی تکلیف کس طرح بڑھ گئی؟ 

جواب

سوال میں ذکر کردہ حدیث کی تشریح میں تکالیف کو ذہنی اور جسمانی اعتبار سےتقسیم کرنے، اور پھر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر تمام انبیاء علیہم السلام کی تکلیفوں میں تقابل کرکے ذہنی اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکالیف کے بڑھنے او رجسمانی اعتبار سے نہ بڑھنے کا ذکر کرنے کا   اسلوب ہمیں کتبِ حدیث کی شروحات  میں محدثین کے کلام میں نہیں ملا۔ 

​جہاں تک مذکورہ حدیث پرعموماً وارد ہونے والےاشکال  کا تعلق ہے تو شارحینِ حدیث نے اس اشکال کا جواب ذکر کیا ہے، چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتےہیں:دیگر انبیاء علیہم السلام کو جو تکالیف دی گئیں،ان کی وجہ سے مذکورہ حدیث پر اشکال وارد ہوتاہے، جیسے: بعض انبیاء کو قتل کیاگیا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ تکالیف ہیں جو جان سے مارڈالنے کے علاوہ ہوں ، اس اعتبار سے جن انبیاء کو قتل کیاگیا ہے ، ان  کی تکالیف اس حدیث میں مراد ہی  نہیں ہیں (کہ ان کی وجہ سے اشکال کی نوبت آئے)۔

فتح الباري میں ہے:

"روى أحمدُ والترمذيُّ وابن حبان من طريق حماد بن سلمة، عن ثابت، عن أنس-رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلى اللهُ عليه وسلم: لقد أُوذيتُ في الله وما يؤذى أحدٌ، وأخفتُ في الله وما يخاف أحدٌ، الحديث. وأخرج ابنُ عديٍّ من حديث جابرٍ رفعه: ما أُوذيَ أحدٌ ما أُوذيتُ. ذكره في ترجمة يوسف بن محمد بن المنكدر، عن أبيه، عن جابر. ويوسف ضعيفٌ ... واستشكل أيضاً بما أُوذيَ به الأنبياء من القتل، كما في قصة زكريا وولدِه يحيى،ويجاب بأنّ المراد هنا غيرُ إزهاقِ الروح."

(كتاب مناقب الأنصار، باب مالقي النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه من المشركين بمكة، ج:7، ص:166، ط:دار المعرفة-بيروت)

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں