میری والدہ مرحومہ کا انتقال 30 جنوری 2023ء کو ہوا، ان کے پانچ بچے تھے، تین بیٹیاں اور دو بیٹے ، ان کی حیات ہی میں ان کے ایک بیٹے کاانتقال 27 مئی 2012ء کو اور ایک بیٹی کا انتقال 3 مئی 2020ء کو ہوا، اور شوہر(میرے والد) کا انتقال 31 جنوری 2021ء کو ہوا، وفات کے وقت مرحومہ نے ورثاء میں ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کو چھوڑا، ان کے درمیان ترکہ کی تقسیم کس طرح ہوگی، اور جن بچوں کا انتقال مرحومہ کی حیات میں ہوا ، کیا ان کی اولاد کا مرحومہ کے ترکہ میں شرعاً کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟
نوٹ: مرحومہ کے والدین کا انتقال مرحومہ کی حیات ہی میں ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ جو ورثاء مورث کے انتقال کے وقت موجود ہوں، شرعاً مورث کے ترکہ کےوہی حقدار ہوتے ہیں،اور جن کا انتقال مورث کی زندگی میں ہوچکا ہو، تو وہ یا ان کی اولاد کا اس ترکہ میں شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوتا، لہذاصورتِ مسئولہ میں جن بچوں (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) کا انتقال سائل کی والدہ کی زندگی میں ہوچکاہے، ان کی یا ان کی اولاد کا شرعاً سائل کی والدہ کے ترکہ میں شرعاً کوئی حصہ نہیں ، البتہ اگر ورثاء اپنی طرف سے ان کو کچھ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، سائل کی والدہ مرحومہ کے ترکہ کی شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو، تو اس کو کل مال میں ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو کل مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد، باقی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو چار حصوں میں تقسیم کرکے دو حصےمرحومہ کے زندہ بیٹے کو اورایک ،ایک حصہ مرحومہ کی ہر ایک زندہ بیٹی کوملےگا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
سائل کی والدہ مرحومہ:4
بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 1 | 1 |
فیصد کے اعتبار سے 50 فیصد مرحومہ کے زندہ بیٹے کو اور 25 فیصد مرحومہ کی ہر ایک زندہ بیٹی کو ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقةً، أو حكمًا كمفقود، أو تقديرًا كجنين فيه غرة و وجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي."
(كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100154
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن