بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی کے متعلق ہدایات و ضوابط پر تبصرہ


سوال

ہمارا ادارہ اجتماعی قربانی کے حصوں کی بکنگ کے لیے ایک رسید جاری کرتا ہے ،جس کی پشت پر کچھ قواعد و ضوابط لکھے ہوئے ہیں ،ان قواعد و ضوابط کی شق وار راہ نمائی فرمائیں کہ آیا یہ تمام شرائط ازروئے شریعت درست ہیں یا نہیں ؟

ضوابط و ہدایت :

1)اجتماعی قربانی میں حصہ لیتے وقت قربانی کرنے اور اس کی تمام امور کی انجام دہی کی اجازت مدرسہ انتظامیہ کو دے دیں ۔

2)گوشت کی وصولی کے لیے رسید ساتھ لانا ضروری ہے ۔ٹوکری وغیرہ کا بندوبست ادارہ کی طرف سے ہوگا ۔

3)وقت پر آنے کا اہتمام کریں ،متوقع وقت کے 3 گھنٹے کے بعد انتظامیہ آپ کی قربانی کے گوشت کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے گی ،گوشت خراب ہونے سے بہتر ہے کہ وہ کسی کے استعمال میں آجائے۔ نوٹ :جانور کی کھال  مدرسہ میں جمع کرا دی جائے گی ۔

4)بعض حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو گوشت کے ٹکڑے (پارچے)یا بہتر گوشت مل جائے ،اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اگر آپ کسی گائے میں حصہ دار ہیں تو شریعت کے حکم کے مطابق گوشت کے ٹکڑے کرنے کے بعد تقسیم کیا جاتا ہے کسی کو گوشت  اور کسی کو ہڈیاں دینا جائز نہیں ۔

5)ہر حصہ دار کو اس کا حصہ شرعی اعتبار سے تقسیم کر کے دیا جائے گا ۔(ان شاء اللہ )پھر بھی انسان ہونے کے ناطے  کوئی غلطی ہوجائے تو اسے معاف کر دیں ۔

6)ہر حصے سے کچھ رقم اخراجات ،خدمت اور سروس چارچز وغیرہ کی مد میں لی جائے گی ،جو بچ جانے کی صورت میں ادارے کے عمومی فنڈ میں جمع کر دی جائے گی ۔

7)اگر آپ اپنا حصہ یا پورا جانور مدرسے کو دینا چاہتے ہیں تو رقم جمع کراتے وقت اس کی وضاحت کر دیں ۔

8)بکنگ رسید پر حصہ وصولی کا متوقع وقت دیا جاتا ہے ،اس میں کسی قسم کی تاخیر ہونے کی صورت میں آپ کا خصوصی تعاون درکار ہوگا ۔

9)قدرتی آفات اور ناگہانی حادثات کی صورت میں ہونے والے نقصان میں ادارہ کسی قسم کی ادائیگی کا ذمہ دار اور قابل مؤاخذہ نہیں ہوگا ۔

            اللہ تعالی آپ کی قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین

خصوصی التماس :حلال اور پاک مال ہی اللہ کے لیے خرچ کرنا چاہیے ۔ناجائز اور حرام مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بچنا چاہیے ۔لہذا اجتماعی قربانی کے سلسلہ میں عرض ہے کہ شریعت کی رو سے علمائے کرام و مفتیان عظام نے لکھا ہے کہ اگر قربانی کرنے والے جانور کے سات شریکوں میں کسی ایک شریک کا مال ناجائز و حرام ہوگا تو باقی تمام شرکاء کی قربانی بھی قبول نہ ہوگی ۔اس لیے تمام حضرات سے گذارش ہے کہ جن حضرات کی آمدنی بینک انوسمنٹ ،بینک ملازمت ،انشورنس بیمہ پالیسی ہولڈر یا کسی بھی قسم کے سودی کاروبار یا اور دوسرے ناجائز امور سے ہو وہ اجتماعی قربانی میں حصہ نہ لیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں بہتر طریقہ یہ ہے ادارہ ان ہدایات و ضوابط کو معاہدہ کی حیثیت دے کر حصہ دار سے اس پر دستخط لے لے تو اس صورت میں مذکورہ تمام  ہدایات و ضوابط پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی ۔

اگر ادارہ  اس کو  معاہدہ کی حیثیت نہیں دیتا ہے تو شق نمبر 2،4،5،7،8،9تو درست ہیں ،ان میں کوئی مضائقہ نہیں ،البتہ شق نمبر تین میں یہ جز کہ "متوقع وقت کے 3 گھنٹے کے بعد انتظامیہ آپ کی قربانی کے گوشت کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے گی" درست نہیں ہوگی ،ادارہ اگر کسی ضرورت مند کو دے بھی دےتو حصہ دار کو بتا دیا جائے کہ آپ کا گوشت صدقہ کر دیا گیا ،اگر وہ قبول کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ ادارہ  اس کا ضامن ہوگا ،اور اگر حصہ دار کے تاخیر کے آنے کی وجہ سے ادارے کی طرف سے تمام تر احتیاط کے باوجود گوشت خراب ہو گیا تو ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا ،اسی شق کا دوسرا جز "جانور کی کھال  مدرسہ میں جمع کرا دی جائے گی"یہ بھی درست نہیں کیوں کہ قربانی کے جانور کی کھال کے مالک تمام شرکاء ہیں ،ادارے کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے  حصہ کی کھال ان کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھ لے ،البتہ اگر ادارہ  حصہ لیتے وقت اس بات کی ان سے اجازت لے لے تو پھر ادارہ کے لیے اس کھال کو رکھنا جائز ہو گا اور  اگر ان میں سے کوئی راضی نہ ہو تو ادارہ  پر اس کے حصہ کی کھالوں یا اس کے بقدر قیمت واپس کرنا لازم ہوگا   ،لیکن چوں کہ لوگوں کے درمیان یہ بات معروف و مشہور ہے کہ کھال مدرسہ انتظامیہ ہی رکھتی ہے اور اس کی آمدنی کو طلباء میں خرچ کرتی ہے ،اس لیے اگر کوئی صراحت سے انکار نہ کرے تو   "المعروف کالمشروط" قاعدہ کی رو سے مدرسے کے لیے اس کا استعمال  جائز ہے ۔اسی طرح  شق نمبر 6 کہ "  ہر حصے سے کچھ رقم اخراجات ،خدمت اور سروس چارچز وغیرہ کی مد میں لی جائے گی ،جو بچ جانے کی صورت میں ادارے کے عمومی فنڈ میں جمع کر دی جائے گی "اس کا حکم یہ ہے کہ  اگر رقم بچ جائے تو حصہ داروں  کو واپس کرنا لازم ہے،  شرکا کی اجازت کے بغیر بچی ہوئی رقم رکھنا جائز نہیں،ہاں اگر وہ خوش دلی سے وہ رقم ادارے کو عطیہ  کردیں تو ادارے کے لیے اس کو لینا درست ہے،البتہ   اگر اجرت کے طور پر  کچھ لینا چاہیں تو ابتدا ءسے ہی رقم متعین کرکے لے سکتے ہیں ۔

الدر المحتار  میں ہے:

"(هلك المبيع من يده قبل حبسه هلك من مال موكله ولم يسقط الثمن) ؛ لأن يده كيده"

(رد المحتار ،کتاب الوکالۃ ،ج:5،ص:516،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(فلا تضمن بالهلاك) إلا إذا كانت الوديعة بأجر أشباه معزيا للزيلعي (مطلقا) سواء أمكن التحرز أم لا، هلك معها شيء أم لا لحديث الدارقطني: «ليس على المستودع غير المغل ضمان» .(واشتراط الضمان على الأمين) كالحمامي والخاني (باطل به يفتى) خلاصة وصدر الشريعة"

(رد المحتار ،کتاب الایداع ،ج:5،ص:664،ط:سعید)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا هلكت الوديعة كلها أو بعضها أو فقدت بدون صنع المستودع وتعديه وتقصيره في الحفظ كما لو سرقت الوديعة كلها أو بعضها لا يلزم الضمان يعني أن خسائرها تعود على المودع. انظر القاعدة الأولى في المادة (768) ؛ لأن الرسول الأكرم (- صلى الله عليه وسلم -) قال: «ليس على المستعير غير المغل ضمان ولا على المستودع غير المغل ضمان» ومعنى أهلكت والإغلال الخيانة. ثم حيث إن مشروعية الإيداع أهلكت بناء على  احتياج الناس"

(کتاب الامانات،ج:2،ص:266،ط:دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100751

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں