بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجنبیہ کو طلاق دینا


سوال

اگر  ایک  مرد کسی اور کا نام لے کر طلاق دے تو کیا طلاق  واقع ہوتی ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے یہ  ضروری ہے کہ جس کو طلاق دی جارہی ہو وہ  عورت اس کے  نکاح میں موجود ہو، یا اگر وہ نکاح میں موجود نہ ہو تو   ملک یا سببِ ملک  کی طرف نسبت کرکے طلاق دی گئی ہے مثلاً: اگر میں نے فلاں عورت سے  نکاح کیا تو اس کو طلاق وغیرہ وغیرہ۔اگر وہ عورت نکاح میں موجود نہ ہو اور فوری طلاق دی گئی  یا ملک یا سببِ  ملک کی طرف نسبت کیے بغیر معلق طلاق دی تو ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص  نے کسی اور عورت کا نام لے کر اس کی طرف  نکاح کی نسبت  کیے بغیر اسے طلاق دی ہے تو  اس سے طلاق  واقع  نہیں  ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 226):

"كتاب الطلاق

(هو) لغةً رفع القيد، لكن جعلوه في المرأة طلاقًا وفي غيرها إطلاقًا، فلذا كان "أنت مطلقة" بالسكون كناية، وشرعًا (رفع قيد النكاح".

اللباب میں ہے:

"وإذا أضاف الطلاق إلى النكاح وقع عقيب النكاح، مثل أن يقول: إن تزوجتك فأنت طالقٌ، أو كل امرأة أتزوجها فهي طالقٌ، وإن أضافه إلى شرطٍ وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالقٌ.

 (وإذا أضافه) أي الطلاق (إلى) وجود (شرط وقع عقيب) وجود (الشرط) وذلك (مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق)، وهذا بالاتفاق، لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط، ويصير عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت".

فقط و الله  اعلم


فتوی نمبر : 144209201124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں