بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجنبیوں کی بنسبت اقارب کو زکاۃ دینا زیادہ بہتر ہے


سوال

1۔میرا سوال زکوٰۃ کے حوالے سے ہے، ایک فیملی جس کے پاس فریج، ٹی وی، واشنگ مشین موجود ہے لیکن کوئی سونا، چاندی یا اس کے برابر کوئی نقد رقم موجود نہیں ہے،صرف چھوٹی بچی کی 8 ہزار کی بالیاں ہیں، آمدنی 30 ہزار ہے، اس میں سے دو بچوں کی اسکول اور قاری کی بھی فیس جاتی ہے، اس میں سے ہی بجلی گیس کا بل بھرا جاتا ہے،اس میں سے ہی گھر کا راشن آتا ہے، مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی تنخواہ ختم ہو جاتی  ہے،تو کسی دوست یا کسی اور سے قرضہ لینا پڑتا ہے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے، گھر کی خاتون کبھی کبھار ان سب مشکلات کی وجہ سے بہت پریشان ہو جاتی ہے، صرف عید پر ہی کپڑے بنتے ہیں اور خاتون کو وہ پورے سال چلانے پڑتے ہیں، کبھی کوئی میڈیکل پروبلم ہوتی ہے، ڈاکٹر کوئی ٹیسٹ وغیرہ لکھ کر دیتے ہیں تو وہ بھی نہیں کروایا جاتا، ایسی فیملی زکوٰۃ کی مستحق ہے؟ اگر مستحق ہے تو اگرکوئی زکوٰۃ کی نیت سے انہیں کپڑے یا جو ضرورت کا سامان وہ خاتون لینا چاہے جیسے کہ کوئی برتن یا کوئی کچن کا سامان جو وہ خاتون خریدنا چاہتی ہو، کوئی زکوٰۃ کی نیت سے ان کو وہ کپڑے یا سامان دلا دے تو ایسا کرنا درست ہے، اس شخص کی زکوٰۃ ادا ہوجاۓ گی؟

2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ شادی شدہ بہن اپنی شادی شدہ بہن کو زکوٰۃ دے سکتی ہے، اور شادی شدہ بھانجی اپنی شادی شدہ خالہ کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو،  تووہ زکوۃ کا مستحق ہے،اس کو زکوۃدینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے مذکورہ شخص کے پاس اگر مذکورہ نصاب نہیں ہے تو اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، اگر زکوۃ دینے والا نقد رقم کی بجائے گھریلو سامان وغیرہ خرید کردے،تو یہ بھی شرعاً جائز ہے،اور اس طرح بھی زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔

2۔ایک بہن دوسری بہن کو زکوۃ دے سکتی ہے ،اسی طرح بھانجی اپنی خالہ کو بھی زکوۃ دے سکتی ہے،بلکہ دیگر اجنبیوں کی بنسبت ان کو دینا بہتر ہے،بشرطیکہ وہ(بہن اور خالہ ) زکوۃ کی مستحق ہو اور کچن یعنی کھانا پینا مشترک نہ ہو۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي".

(کتاب الزکوۃ،الباب السابع فی المصارف،189/1 ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة".

(کتاب الزکوۃ ،باب مصرف الزکوۃ،346/2 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں