بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کا اجنبیہ سے فون پر تعلق رکھنا


سوال

میری ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی تھی، سوشل میڈیا کے ذریعے ہم روزانہ  بات کرتے تھے ، وہ میرے یہاں سے بہت دور ہے،  اب ہم دوست ہیں ، ہاں لیکن میرے دل میں اس کے ليے بالکل گندی سوچ نہیں ہے،  لیکن ہم دونوں ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں،  جو بالکل پاگل پن ہے،  اس نے بولا بھی ہے کہ  اگر شادی کے لیے گھر والے مان گئے تو نکاح کر لیں گے،  وہ نماز بھی پڑھتی ہے اور قرآن بھی ، لیکن وہ الگ ہی عقیدے کی ہے ، میں ایک حافظ ہوں اور عربی اول پڑھ رہا ہوں،  اس نے بتایا نہیں ہے، لیکن وہ شاید   بریلوی  ہے،  اس نے اپنے گھر میں ہونے والی ایسی ایسی رسمیں بتائی ہیں جو میں نے پہلے کبھی سنی بھی نہیں ہيں  تو جتنا مجھ کو پتہ ہوتا ہے اس کو بتاتا ہوں ،  اب  وه رسموں کو چھوڑ رہی ہے،  لیکن اس کے گھر والے بہت کچھ کرتے ہیں اور غلط عقیدہ رکھتے ہیں،  مثلاً اگر کسی کو کوئی بیماری ہے تو بس یہی سوچتے ہیں کہ اللہ بس ہمیں  یہ سب دیتا ہے، تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ: اگر میں اس کو جتنا بتا سکتا ہوں بتاتا رہوں ؟ یا اس سے بات کرنا بند کر دوں ؟ اور  وہ خود بھی مجھ سے پوچھ لیتی ہے ،پھر وہی کرتی ہے جو میں بتا دیتا ہوں،  وہ پہلے مزار پر  جاتی تھی،  اب تو اس کے گھر کے لوگ جاتے ہیں،  لیکن وہ نہیں جاتی،  غیر لڑکیوں سے بات کرنا بھی گناہ ہے،  لیکن ہم کوئی غلط بات نہیں کرتے، بس ہم نے سوچا ہے کہ اگر گھر والے مان گئے تو  والدین کی مرضی کے ساتھ نکاح کر لیں گے،   اگر منع کر دیا تو ایک دوسرے کو چھوڑ دیں گے ،  اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ اُس سے تعلّق رکھنا چاہیے جس سے مجھے امید ہے کہ  ان کو راہِ حق پر لایا جا سکتا ہے؟  یا ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے  لیے اجنبی لڑکی سے سوشل میڈیا کے کسی پلیٹ فارم یا کسی بھی ذریعہ سے  رابطہ قائم کرنا، بات چیت کرنا اور  اسے دوست بنانا  شرعاً درست نہیں، مذکورہ لڑکی کے ساتھ  یہ تعلقات، خواہ دعوتی مقاصد ، یا اس کی اصلاح کی نیت ہو، شرعاً جائز نہیں، بلکہ اصلاح  وغیرہ کو عذربنانا بھی شیطانی دھوکا  ہے جو  کہ  درست نہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جب بھی کوئی مرد وعورت تنہائی اختیار کرتے ہیں تو تیسرا اُن میں شیطان ہوتاہے، واضح رہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ تنہائی بھی باعثِ فتنہ  اور ناجائز ہے، اور ناجائز ذرائع سے کسی کو دین کی دعوت دینا جائز نہیں اور نہ ہی انسان ا س کا مکلف ہے، لہٰذا سائل پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ لڑکی سے فی الفور رابطہ و تعلقات ختم کرے اور جو کچھ ہوچکاہے اس پرسچے دل  توبہ واستغفار کرے،اگرسائل مذکورہ لڑکی سے نکاح کرناچاہتاہے تو اس بارے میں بہتر یہ ہے کہ گھروالوں کو اس بارے میں راضی کرکے، اس کے بڑوں کو راضی   کرکےنکاح کرلے،لیکن چوں کہ دونوں خاندانوں  کے درمیان عقائد کے اعتبار سے ذہنی ہم آہنگی نہیں  اور  یہ مستقبل کی زندگی پر اثر انداز ہوسکتاہے،لہٰذا اس سلسلے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔

سنن التر مذي   میں ہے:

"حدثنا قتيبة قال: حدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إياكم والدخول على النساء»، فقال رجل من الأنصار: يا رسول الله، أفرأيت الحمو، قال: «الحمو الموت» وفي الباب عن عمر، وجابر، وعمرو بن العاص.: حديث عقبة بن عامر حديث حسن صحيح، وإنما معنى كراهية الدخول على النساء على نحو ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لا ‌يخلون ‌رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان»، " ومعنى قوله: «الحمو»، يقال: هو أخو الزوج، كأنه كره له أن يخلو بها."

(أبواب الرضاع، باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، ج:3،ص:466، ط:مصطفى البابي الحلبي)

رد المحتار میں ہے:

"ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال - عليه الصلاة والسلام - «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها - عليه الصلاة والسلام - من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."

 ( كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مطلب في سترالعورة،ج:1،ص:406، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں