اگر ایک لڑکی کی منگنی ہوئی ہو، اور وہ اور کسی اور لڑکے سے بات کرتی ہو اور اگر لڑکی کے گھر والے لڑکے کو قتل کردیں،عزت کی خاطر، تو کیا حکم ہے؟ شریعت کی روشنی میں رہنمافرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں اجنبی لڑکی کا کسی اجنبی لڑکے سے فون پر بات کرنا انتہائی شنیع اور باعثِ گناہ عمل ہے، اگر یہ عمل ثابت ہوجائے تو بڑوں کی طرف سے سخت تنبیہ ہونی چاہیے، تاہم مذکورہ عمل کی وجہ سے غیرت کے نام پر لڑکے کو یا لڑکی کو قتل کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوجائے تو شریعتِ مقدسہ میں اس حوالے سے واضح اَحکام موجود ہیں، جرم کے اِثبات کا طریقہ اور اس کی سزائیں بھی متعین ہیں، گناہ کے وقوعہ کے بعد کسی شخص کو اَز خود سزا نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، پھر اگر جرم ثابت نہ ہو، یا جرم اس نوعیت کا نہ ہو جتنی سزا دی جائے تو یہ بجائے خود گناہ اور جرم ہے، اور اس طرح کے قتل مزید دشمنیاں اور ایک ختم نہ ہونے والی نفرت کا سلسلہ شروع کردیتا ہے، لہذا غیرت کے نام پر قتل جیسے سنگین گناہ سے بچتے ہوئےحکمت ومصلحت سے شرعی قانون کے مطابق مذکورہ جرم کا سدِّ باب کرنا چاہیے۔
فيض القدير للمناوی میں ہے:
"غيرتان إحداهما يحبها الله والأخرى يبغضها الله تعالى ومخيلتان إحداهما يحبها الله والأخرى يبغضها الله تعالى الغيرة في الريبة يحبها الله والغيرة في غير ريبة يبغضها الله والمخيلة إذا تصدق الرجل يحبها الله والمخيلة في الكبر يبغضها الله عز وجل.
قال ابن حجر: وهذا الحديث ضابط الغيرة التي يلام صاحبها والتي لا يلام فيها قال: وهذا التفصيل يتمحض في حق الرجل لضرورة امتناع اجتماع زوجين لامرأة لطريق الحل وأما المرأة فحيث غارت من زوجها في ارتكاب محرم كزنا أو نقص حق وجور عليها لضرة وتحققت ذلك أو ظهرت القرائن فهي غيرة مشروعة فلو وقع ذلك بمجرد توهم عن غير ريبة فهي الغيرة في غير ريبة وأما لو كان الزوج عادلا ووفى لكل من زوجتيه حقها فالغيرة منها إن كانت لما في الطباع البشرية التي لم يسلم منها أحد من النساء فتعذر فيها ما لم يتجاوز إلى ما يحرم عليها من قول أو فعل وعليه حمل ما جاء عن السلف الصالح من النساء في ذلك كعائشة وزينب وغيرهما".
(باب الغین، رقم الحدیث:8356، ج:4، ص:408، ط:مکتبۃ التجاریۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507102234
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن