بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجنبی عورت سے بات نہ کرنے کی قسم کھانا


سوال

دو دوستوں نے قسم کھائی کہ فلاں لڑکی سے بات نہیں کریں گے، لڑکی نامحرم ہے، کیا ان کی قسم منعقد ہو گی؟ اب اگر کوئی بات کرے گا؟ تو کیا کفارہ لازم ہو گا؟ وہ حانث ہو جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی نامحرم لڑکی سے  بلا ضرورت شرعیہ بات چیت کرنا  ناجائز ہے، اور بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہونے کا پیش خیمہ بھی ہے؛ لہٰذا(چاہے کوئی شخص نامحرم لڑکی سے  بات نہ کرنے کی قسم کھائے یا نہ کھائے)اس فعل  سے ہر حال میں  اجتناب لازم ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے جس خاتون سے بات نہ کرنے کی قسم اٹھائی ہے،تو یہ قسم منعقد ہو گئی ہے،اور اب مذکورہ خاتون سے بات کرنے کی صورت میں یہ دونوں دوست حانث ہوجائیں گے، اور (دونوں کو الگ الگ)قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑے  گا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جَو دیں تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں، یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں اور اگر آپ کی مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتے ہیں اور نہ کپڑے دے سکتے ہیں تو قسم کے کفارے کی نیت سے  مسلسل تین روزے رکھیں،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھیں۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے:

"و كفارته تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين أو كسوتهم بمايستر عامة البدن ... و إن عجز عنها صام ثلاثة أيام ولاء."

(کتاب الإیمان، ج:3، ص: 727، ط: سعید)

در مختار میں ہے:

 "و في الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: و لايكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايردّ السلام عليها و إلا لا، انتهى، و به بان أن لفظه لا في نقل القهستاني، و يكلمها بما لايحتاج إليه زائدة فتنبه."

رد المحتار میں ہے:

 "(قوله: و إلا لا) أي وإلا تكن عجوزًا بل شابّةً لايشمتها، و لايرد السلام بلسانه قال في الخانية: و كذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ.وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله: في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله: زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، و ليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ فالظاهر أنه قول آخر أو محمول على العجوز تأمل، وتقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة على الراجح و مر الكلام فيه فراجعه."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ۶/۳۶۹، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں