بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجنبی عورت کے ساتھ بوس وکنارسے سسرالی رشتہ قائم ہوجاتاہے


سوال

حارث کے ایک عورت کے ساتھ جنسی تعلقات تھے ، ان کے درمیان کبھی زنا نہیں ہوا، باقی وہ ایک دوسرے کے جسم بشمول شرم گاہ کو ہاتھ لگانا، عورت کے پستانوں، ہونٹوں کو چومنا وغیرہ وغیرہ ، اب حارث کی شادی اسی عورت کی بیٹی کے ساتھ  ہوگئی ہے، اب  کیا یہ نکاح درست ہوا؟ اگر یہ نکاح درست نہیں ہے تو کوئی ایسی صورت ہےجس سے یہ نکاح درست ہو سکے؟

جواب

واضح رہے، جس طرح  زناسے سسرالی کارشتہ قائم ہوتاہے یعنی زناکرنے والے مردپراس عورت (جس سے زناکیاگیا)کی ماں اوربیٹیاں   حرام ہوجاتی ہیں  اسی طرح کسی اجنبی عورت  کے ساتھ بوس وکنارکرنے سے یااس کی شرمگاہ کوشہوت کے ساتھ دیکھنے اورچھولینے سے بھی ثابت ہوتاہے۔اس تمہیدکی روشنی میں :

صورت مسئولہ میں حارث نے اگرمذکورہ اجنبی عورت کے جسم کوشہوت کے ساتھ  چھواہے یابوس وکنارکیاہے توان تمام صورتوں میں سسرالی کارشتہ قائم ہوچکاہے ،لہذاحارث کااس عورت کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے،حارث پر لازم ہے کہ وہ اس  عورت کی بیٹی کوفوراًچھوڑدے اورتوبہ واستغفارکرے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتثبت(حرمة الصاهرة)بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خانوكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. سواء كان بنكاح أو ملك أو فجور عندنا، كذا في الملتقطولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء إلا بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء لا عن شهوة بلا خلاف، كذا في البدائع. والمعتبر النظر إلى الفرج الداخل هكذا في الهداية. وعليه الفتوى هكذا في الظهيرية وجواهر الأخلاطي".

 (كتاب النكاح،الباب الثالث:في بيان المحرمات،1،ص:274،ط:المطبعة الكبری ببولاق مصر)

شامی میں ہے:

"أسباب التحريم أنواع: قرابة، مصاهرة، رضاع، جمع، ملك، شرك، إدخال أمة على حرة، فهي سبعة(قوله: مصاهرة) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علونوكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن".

(كتاب النكاح،فصل:فی المحرمات،ج:3،ص:28،ط:ایچ ایم سعیدباکستان)

وفیہ ایضا:

"وفي الكشاف واللمس ونحوه كالدخول عند أبي حنيفة وأقره المصنف(قوله: وفي الكشاف إلخ) تبع في النقل عنه صاحب البحر، ولا يخفى أن المتون طافحة بأن اللمس ونحوه كالوطء في إيجابه حرمة المصاهرة من غير اختصاص بموضع دون موضع (و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (قوله: وأصل ممسوسته إلخ) ؛ لأن المس والنظر سبب داع إلى الوطء فيقام مقامه في موضع الاحتياط هداية. واستدل لذلك في الفتح بالأحاديث والآثار عن الصحابة والتابعين. (قوله: بشهوة) أي ولو من أحدهما كما سيأتي".

(كتاب النكاح،فصل:فی المحرمات،ج:3،ص:31-32، ط:ایچ ایم سعیدباکستان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں