بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیر خاص عمل کے لیے حاضرہوجائے تووہ تنخواہ کا مستحق ہوتا ہے


سوال

  ایک شخص جو کہ سرکاری ملازم یعنی سرکاری ٹیچر ہے، اس کی ڈیوٹی ایک ایسی جگہ لگی ہے جہاں پر سرکاری اسکول تو ہے ،مگر وہاں بچے پڑھنے آتے ہی نہیں ہیں ، اسکول مکمل طور پر بند ہوچکا ہے، اب یہ سرکاری ٹیچر پانچ سال تک اپنا تبادلہ بھی نہیں کراسکتا اور پڑھانے کے  لیے بچے بھی نہیں اور اس ٹیچر کی تنخواہ بھی جاری ہے تو اس صورت میں اس کی تنخواہ حلال ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اسکول   ٹیچرکی حیثیت شرعی طورپر اجیر خاص کی  ہےاور اجیر خاص کی قانونی اور شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ مقررہ مدت میں اپنے آپ کوذمہ داری کےلیےحوالہ کرے،و رنہ اجیرخاص اجرت (تنخواہ) کا مستحق نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر یہ شخص   ادارے کی طرف سے مقررہ وقت میں حاضر  رہتاہے  چاہے بچے پڑھنے آ  ئیں یا  نہ آئیں تو اس صورت میں  اس کے لیے  تنخواہ لینا حلال  ہے ،اور اگر یہ شخص گھر بیٹھ کرحکومت کی طرف سے تنخواہ لیتا ہے اور یہ گمان کرکےاسکول   نہیں جاتا کہ پڑھنے والے    بچے ہی نہیں ہیں تواس صورت میں اس کے لیے تنخواہ لینا جائز نہیں  ہوگا، اس شخص کو چاہیے کہ اپنے متعلقہ  ادارے کومطلع کرے،تاکہ اس کی کسی اور جگہ ڈیوٹی لگائی جائے، اگرمتعلقہ  ذمہ دار ادارے  کو مطلع کرنےکے باجود      اس کا تبادلہ نہیں کرتےہیں اور بغیرحاضری اور ڈیوٹی کے تنخواہ جاری کرتے ہیں ،تو اس کے ذمہ دار ادارے   کے ذمہ داران ہوں گے ،سائل کے لیے تنخواہ حرام نہیں،  بلکہ جائز ہوگی ،باقی اگر استعفا دے  کر کو ئی دوسرا جائز روزگار کرے تو یہ احتیاط اور تقوی کی بات ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى ..(قوله وإن لم يعمل) أي إذا تمكن من العمل، فلو سلم نفسه ولم يتمكن منه لعذر كمطر ونحوه لا أجر له كما في المعراج عن الذخيرة."

(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر، مبحث الأجیر الخاص، 69/6، ط،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قالوا الأجير المشترك من يستحق الأجر بالعمل لا بتسليم نفسه للعمل والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر."

(کتاب الإجارۃ، الباب الثامن والعشرون في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك، 500/4، ط: دارالفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم."

(کتاب الإجارات، باب إجارۃ العبد، 140/9، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں