بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیر خاص سے معاہدے میں طے شدہ کام سے زیادہ لینا


سوال

میری  گورمنٹ  اسکول کی جاب ہے،  جس میں میرا سینڈی ور کر کا کام ہے،جس میں  میرے ذمہ  صرف  یہ کا م ہے کہ کرسیوں اور تپائیوں کی جھاڑ پونچھ وغیرہ ہے ،اسکو ل والے کبھی باتھ روم وغیرہ کی صفائی بھی کرواتے ہیں ،اب میں چاہتاہوں کہ مجھ سے صرف شریعت کے مطابق کام کروائے جائیں ،باتھ روم کی صفائی کے بعد باربار مجھ صفائی کرناپڑتاہےاور مسلمان ہونے کے ناطے میرا دل اس کو نہیں مانتا،کیااسکول والوں کامجھ سے یہ کام کرواناجائز ہے اور کیا ایک مسلمان کے لیے یہ کام کرناجائز ہے؟

جواب

 صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کو نوکری دیتے  وقت یہ طے ہواتھاکہ اس کے ذمہ صرف کرسیوں اور تپائیوں کی  جھاڑ پونچھ کاکام ہوگا،تو اب ملازم  سے  اس کی رضامندی کے بغیر بیت الخلاء صاف کر واناشرعاً جائز نہیں ہے؛کیوں کہ جو معاہدہ ہواتھا،اس کی پاسداری شرعاً ضروری ہے،اس کی خلاف ورزی جائز نہیں،ہاں اگر اسکول والے سائل کو اس اضافی کام کے بدلے زائد  تنخواہ دیں تو اس صورت میں یہ  جائز ہے ،اور جہاں تک  بات ہے سائل کے  اس  سوال کی کہ  کیا ایک مسلمان باتھ روم صاف کرسکتاہے ؟

تو اس سلسلے میں   واضح   رہے کہ  ایک مسلمان شخص بھی  باتھ روم صاف کر سکتاہے ،اس میں  شرعاً کوئی قباحت  نہیں،البتہ  اگر کپڑے گندے ہونے کا خطرہ ہے تو  باتھ روم کی صفائی کے دوران  مخصوص  کپڑے جو اس کام کے لئے متعین کرے وہ  پہن لے ،اور صفائی سے فارغ  ہوکر صاف کپڑے پہن لے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أقول: سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن تكون لغيره فيها أيضا، وقوله بعد ذلك لترعى الغنم يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على العمل فيصير أجيرا مشتركا؛ لأنه من يقع عقده على العمل، وأن يكون لبيان نوع العمل الواجب على الأجير الخاص في المدة، فإن الإجارة على المدة لا تصح في الأجير الخاص ما لم يبين نوع العمل؛ بأن يقول: استأجرتك شهرا للخدمة أو للحصاد فلا يتغير حكم الأول بالاحتمال فيبقى أجير وحد ما لم ينص على خلافه بأن يقول: على أن ترعى غنم غيري مع غنمي وهذا ظاهر أو أخر المدة بأن استأجره ليرعى غنما مسماة له بأجر معلوم شهرا فحينئذ يكون أجيرا مشتركا بأول الكلام لإيقاع العقد على العمل في أوله، وقوله شهرا في آخر الكلام يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على المدة فيصير أجير وحد، ويحتمل أن يكون لتقدير العمل الذي وقع العقد عليه فلا يتغير أول كلامه بالاحتمال ما لم يكن بخلافه."

(کتاب الإجارۃ ،باب ضمان الأجیر، 6/ 70، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں