بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیر تعدی کرنے کی صورت میں نقصان کا ضامن ہوگا


سوال

زید نے مال بردار گاڑی کی ڈرائیونگ کے لیے  بکر کو بطور ِ ڈرائیور رکھا ، جس میں وہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک قانونی سامان لے کر آتا جاتا رہتا تھا ، مگر ڈرائیور بکر اس گاڑی میں اپنے لیے غیر شرعی اور غیر قانونی سامان بھی لے جاتا تھا ،  مالک کو اس کا علم نہیں تھا ، حکومت نے غیر قانونی سامان سپلائی کی وجہ سے گاڑی پکڑ لی ، پھر معلوم ہوا کہ  اس  ڈرائیور کا کالعدم تنظیم کے  ساتھ تعلق ہے  ، تو حکومت نے ڈرائیور کو گاڑی سمیت اپنی تحویل میں لے لیا ۔(واضح رہے  کہ یہ گاڑی مالک  زید نے غیر ملکی کرنسی تومان سے ایران میں  پچپن  ملین کے  حساب  سے خریدی  تھی ، جن میں سے تیس ملین  زید ادا کر چکا ہے، بقایا پچیس  ملین  ذاکر  کے  ذمہ واجب الادا  ہیں ۔  )

اس کے بعد  زید ڈرائیور  بکر کے والد سے مطالبہ کرتا رہا کہ مجھے اس طرح کی گاڑی لا کر دو ؛ کیوں کہ تمہارے بیٹے کے کرتوتوں کی وجہ سے گاڑی پکڑی گئی تھی ، لیکن  بکر کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم نہیں دے سکتے ہیں ۔تقریباً چار سال بعد  بکر قید سے رہا ہوا ، لیکن گاڑی ہمیشہ کے  لیے ضبط ہو گئی ۔

اب مالک مطالبہ کر رہا ہے کہ مجھے گاڑی کی قیمت ادا کر و ، اور یہ کہہ رہا ہے کہ یہ گاڑی میری کمائی کا ذریعہ تھی، لیکن تمہاری وجہ سے چار  سال سے گاڑی ضبط ہو گئی ،  اور کوئی کمائی نہیں ہوئی ہے ؛ لہذا اس عرصہ میں کمائی نہ ہونے  کی وجہ سے  جتنا میرا نقصان ہوا اس کی بھی تلافی کرو ۔

اب   سوال یہ ہے کہ :

1۔ ڈرائیور پر  گاڑی کی آج کی قیمت کی ادائیگی لازم ہوگی یا چار سال قبل جو قیمت تھی وہ  ادا کر نی ہوگی   ؟

2۔چار سال سے گاڑی بند رہنے کی وجہ سے  کمائی نہ ہونے  کی صورت میں جو نقصان ہوا ہے  ، اس کی تلافی  بکر پر لازم ہوگی یا نہیں ؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں ڈرائیور پر آج کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے گاڑی کی قیمت کی ادائیگی لازم ہے۔

2۔ چار سال   گاڑی بند رہنے   کی وجہ سے  جو   کمائی نہ   ہو سکی، اس  نقصان  کی تلافی ڈرائیور  کے ذمے  لازم نہیں  ہے ۔

«مجلة الأحكام العدلية»  میں ہے :

"(المادة 607) لو تلف المستأجر فيه بتعدي الأجير أو تقصيره يضمن."

(المادة 608) تعدي الأجير هو أن يعمل عملًا أو يتحرك حركة مخالفتين لأمر الآجر صراحة أو دلالة مثلا بعد قول المستأجر للراعي الذي»هو أجير خاص ارع هذه الدواب في المحل الفلاني ولا تذهب بها إلى محل آخر فإن لم يرعها الراعي في ذلك المحل و ذهب بها إلى محل آخر و رعاها يكون متعديًا فإن عطبت الدواب عند رعيها هناك يلزم الضمان على الراعي ...

"(المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف و شدة هلكت لزمه ضمان قيمتها.

(المادة 603): حركة المستأجر على خلاف المعتاد تعد و يضمن الضرر و الخسارة التي تتولد معها مثلًا لو استعمل الثياب التي استكراها على خلاف عادة الناس و بليت يضمن."

(الفصل الثالث: في ضمان الأجير : 112 / 113 ، ط : نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں