بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شعبان 1446ھ 13 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

اجیر سے نقصان کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

1۔میں  گاۓ،بھینس کا باڑہ (دودھ کا کاروبار)چلاتاہوں،میرے جاننے والوں نے مجھ سے یہ کاروبار کرنے کی خواہش ظاہر کی ،میں نے انہیں کاروبار کے بارے میں سب کچھ بتادیااور یہ بھی بتایا کہ یہ کاروبار کم از کم تین سال بعدنتائج دےگا،وہ یہ کاروبار کرنے پر آمادہ ہوگئے ،یہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے ہم نے ایک تحریری معاہدہ کیا جو اس سوال کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
1۔ان کے کاروبار پر جتنی رقم لگے گی،وہ یہ خود لگائیں گے،میں صرف ورکنگ پارٹنر ہوں گا۔ کاروبار کے لیے الگ جگہ  اور نئے جانور لیے گئےجو ان کے ذمےتھااور اس کے ساتھ جو سامان درکار تھا،وہ بھی لیا گیا۔
2۔یہ بات طے پائی گئی کہ دودھ بیچ کرحاصل کی گئی ،رقم سے ہر ماہ کے اخراجات نکالنے کے بعد 75فیصد یہ لے جائیں گےجنہوں نے اس کاروبار میں پیسےلگائیں ہیں اور25فیصد مجھے میری محنت کا ملےگا۔
3۔جانوروں میں بچوں کی صورت میں جو اضافہ ہوگا،وہ ان کا ہوگا۔
یہ کاروبار 15ماہ چلنے کے بعد انہوں نےکہاکہ ہم یہ کاروبار نہیں کرنا چارہے،اس لیے اس کاروبار کو ختم کردیں،میں نے پھر بھی سمجھایا کہ آپ یہ کاروبار ختم کریں گے تو بہت نقصان ہوجاۓگا،وہ نہیں مانے اور کہنے لگےکہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمیں یہ کاروبار ختم کرنا ہے،ا س کاروبار کے ختم کرنے کی وجہ سے جو نقصان آۓگا،کیا شرعاً میں اس نقصان میں ان کے شریک ہوں گا؟
2۔اس کے علاوہ میں نے ان کے قربانی کے لیے خریدے ہوۓ جانوروں کا بہت خیال رکھا،ان میں کچھ جانور عید تک فروخت ہوۓجس میں نہ کوئی نفع ہوا اور نہ کوئی نقصان،اور کچھ جانوروں کو ایک سال اور پالنے کے لیے چھوڑا،وہ جانور چند ماہ ہمارے ہاں پلتے رہے،پھر وہ ان کو لے گئے اور ان کی مارکیٹ کے مطابق قیمت لگواکر بیچ دیا،جس میں انہیں نقصان ہوا،اب ان کا کہنا ہیں کہ میں اس نقصان میں ان کے شریک ہوں، جب کہ میں اپنی خدمت کا معاوضہ مانگ رہا ہوں،شرعاًاس کا کیا حکم ہے؟

جواب

2۔1۔واضح رہے کہ شرکت اس عقد کو کہا جاتاہےجس میں دو آدمی مال اور نفع میں شریک ہونے کے معاملے کو طے کرلیں،اور اجارہ ایسا عقد ہے جس میں کسی چیز کا حقِ استعمال یا منافع،متعین رقم کے بدلے دوسرے شخص کو فروخت کردیا جاۓ،البتہ اگر متعین رقم کی جگہ فیصد کے اعتبار سے اجرت مقرر کی جاۓتو اجارہ فاسد ہوجاتاہے،اور ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ سارا ما ل اور نفع مالک کا ہوگااور مزدورکو اپنی مزدوری کے بقدر رقم ملے گی۔ 
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل کا ابتدا  میں بھی کسی قسم کا سرمایہ نہیں لگا اور بعد کے اضافے میں بھی اس کا حصہ نہیں ہے،بل کہ اس کے ذمہ جانوروں کی دیکھ بال اور دودھ فروخت کا کام تھاتوسائل کی حیثیت شریک کی نہیں بل کہ اجیر کی ہے،اور اس معاملے کی درستی  کے لیےضروری تھاکہ سائل کے لیے کوئی متعین اجرت طے کی جاتی ،جب کہ یہاں نفع کا پچیس فیصد طے کی گئی جو مجہول ہے،لہذ ایہ اجارہ شرعاًًدرست نہیں ہوا،اب اس کاروبار کا سرمایہ اور سارے منافع مالکان کے ہوں گے،سائل نے جتنی مدت کام کیا ہے اتنی مدت کی اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا،اور جس طرح نفع سارا مالکان کا ہےتو نقصان بھی سارا نہی کے ذمہ ہوگا،مالکان کا نقصان میں اجیر کو شریک کرنا درست نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌كتاب الشركة ... (هي) بكسر فسكون في المعروفلغة الخلط، سمي بها العقد لأنها سببه. و شرعًا(عبارة عن عقد بين المتشاركين في الأصل و الربح) جوهرة."

(ألدر المختار،کتاب الشركة،299/4،ط:سعید)

و فیه أیضاً:

"كتاب الإجارة ... (هي) لغة: اسم للأجرة و هو ما يستحق على عمل الخير و لذا يدعى به، يقال: أعظم الله أجرك. و شرعًا(تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض)."

(ألدر المختار، کتاب الاجارۃ، 4/6، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(الفصل الأول فيما يفسد العقد فيه) الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لايعين محل العمل و قد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لايبين المدة و قد يكون لجهالة البدل و قد يكون بشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد فالفاسد يجب فيه أجر المثل و لايزاد على المسمى إن سمى في العقد مالًا معلومًا، و إن لم يسم يجب أجر المثل بالغًا ما بلغ."

(كتاب الأجارة، الباب الخامس عشر في بيان مايجوز من الأجارة و ما لايجوز، 439/4، ط: سعید)
فقط و اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں