بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیر کا اجرت پر راضی نہ ہونا اور وعدہ کی شرعی حیثیت


سوال

1۔ میرا ایک آدمی سے معاہدہ ہوا کہ میں اس کی دکان میں صبح سے ایک بجے تک کام کروں گا اور وہ مجھے روزانہ کی بنیاد پر 500 روپے دے گا، لیکن بعد میں اس نے کام کو تین بجے تک، پھر پانچ بجے تک بڑھایا اور اجرت وہی 500 روپے ہے، اگرچہ میں اس کے اس عمل پر راضی نہیں ہوں، لیکن ضرورت کی بنیاد پر اس کام کو سر انجام دے رہا ہوں، تو کیا اس کا یہ عمل شریعت کے خلاف ہے یا نہیں؟

2۔ اسی طرح شریعت میں وعدہ کی کیا اہمیت ہے؟ کیا وعدہ کو پورا کرنا لازم ہے؟ پورا کرنے والوں کے لیے کیا وعدے ہیں اور پورا نہ کرنے والوں کے لیے کیا وعیدیں ہیں؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ ملازمت (اجارہ) کے معاملے میں دیگر معاملات کی طرح عاقدین  کی باہمی رضامندی ضروری ہے، دونوں میں سے اگر کوئی ایک بھی راضی نہ ہو تو ملازمت کا معاملہ صحیح نہیں ہوتا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل راضی نہ ہونے کے باوجود اگر اپنے اختیار سے کام کررہا ہے تو اسے سائل کی رضامندی شمار کیا جاۓ گا، تاہم اگر وہ وقت بڑھنے کے باوجود اسی تنخواہ پر قائم نہیں رہنا چاہتا تو سائل کو اختیار ہے کہ یا تو وہ فریق ثانی سے نیا معاہدہ کرنے کا کہے یا بامرِ مجبوری اسی تنخواہ پر قائم رہے ۔

2۔ شریعتِ مطہرہ میں وعدہ پورا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے اور وعدہ خلافی کرنا سخت گناہ ہے، حدیث میں وعدہ خلافی کرنے کو منافق کی نشانی کہا گیا ہے، تاہم اگر سائل کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بدل رہا ہے اور سائل اس پر راضی ہے تو اسے وعدہ خلافی نہیں کہا جاۓ گا۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَوْفُوا۟ بِٱلْعُقُودِ."

(سورة المائدة: 1)

ترجمہ: "اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو۔"

(بیان القران، ج: 2، ص: 21، ط: مکتبہ غزنوی کراچی)

صحیح بخاری  میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌آية ‌المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان»."

(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج: 1، ص: 16، ط: دار طوق النجاة بيروت)

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاۓخیانت کرے۔"

(نصر الباری، باب علامات المنافق، ج: 1، ص: 285، ط: مکتبۃ الشیخ کراچی)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"وأما كون العاقد طائعا مختارا عامدا فليس بشرط لانعقاد هذا العقد ولا لنفاذه عندنا لكنه من شرائط الصحة."

(كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج: 4، ص: 410، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين."

(كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج: 4، ص: 411، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں