بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیر خاص کو وقت کی شرط کے ساتھ مقید دگنی تنخواہ دینا


سوال

ایک دکان دار نے اپنی دکان پر جب بھی کسی لڑکے کو کام پر رکھا، تو وہ لڑکاکام سیکھ کر کسی اور جگہ چلا جاتا ہے، اس تکلیف سے بچنے کےلیے ابھی اس دکان دار نے  اس شرط اور معاہدے کے تحت ایک  ملازم کو بھاری بھر کم تنخواہ پر رکھا تھا کہ وہ کم از کم عید الفطر تک کام کرے گا، جس میں کوئی چھٹی بغیر عذر شرعی کے نہیں ملے گی، اور کام سیکھنے کے بعد درمیان میں چھوڑ کر نہیں بھاگے گا، اور اس کی تنخواہ مارکیٹ میں رائج تنخواہ سے مذکورہ بالا شرط پر دگنی طے کی تھی، مگر وہ ساتھی بھی کام سیکھتے ہی عرصہ دو ماہ کے اندر چلا گیا ہے، موصوف پہلے ماہ معاہدے کے تحت مارکیٹ سے دگنی تنخواہ لے چکے تھے، اور جاتے وقت معاہدے کی پاسداری پر توجہ دلائی گئی، تو ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ مجھے مزید پیسے نہیں دیں گے، تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن مجھے فلاں جگہ کام کرنا ہے، میں جارہا ہوں، لیکن ابھی ایک ماہ گزرنے کے بعد تنخواہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اب آیا موصوف مارکیٹ میں رائج تنخواہ کے مستحق ہوں گے یا طے شدہ تنخواہ کے مستحق ہوں گے؟ براہ کرم شرعی طور راہ نمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دکان دار نے  ملازم کو اپنی دکان میں اس شرط اور معاہدے کےساتھ تو رکھا تھا کہ وہ ملازم عیدالفطر تک اسی دکان میں کام کرے گا، اور کام سیکھنے کے بعد یہ دکان چھوڑ کر نہیں بھاگے گا، اسی شرط کی بناء پر اس ملازم کی تنخواہ بھی مارکیٹ میں رائج تنخواہ سے دگنی مقرر کی گئی تھی، اس کے بعد اس ملازم نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ، اور طے شدہ وقت سے پہلے کام چھوڑ کر چلاگیا، تو اس اس وعدہ خلافی کی وجہ سے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے جتنی مدت کام کیا ہے، اس مدت میں وہ طے شدہ (دگنی ) تنخواہ ہی کا حق دار ہوگا۔

قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

"وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا."(سورۃ الإسراء: 34)

ترجمہ: ’’اور عہد (مشروع) کو پورا کیا کرو، بیشک (ایسے) عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔‘‘

(از: بیان القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الاجارۃ، باب ضمان الاجیر، ج: 6، ص: 72، ط: سعید)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشترط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة.ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل.أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة، فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة مثال ذلك كما لو آجر إنسان نفسه من آخر ليخدمه سنة على أجر معين فخدمه ستة أشهر ثم ترك خدمته وسافر إلى بلاد أخرى ثم عاد بعد تمام السنة وطلب من مخدومه أجر ستة الأشهر التي خدمه فيها؛ فله ذلك وليس لمخدومه أن يمنعه منها بحجة أنه لم يقض المدة التي استأجره ليخدمه فيها."

(كتاب الإجارة، الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة، المادة: 425، ج: 1، ص: 458، ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں