بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیرخاص کے لیے اوور ٹائم کی اجرت کسی اورشخص سے لینے کا حکم


سوال

ہم کچھ حضرات ایک  کمپنی کے  ملازم ہیں، اور یہی  کمپنی ہمیں  ماہانہ تنخواہ دیتی ہے ،اور جس محکمے کا کام ہم کررہے ہیں وہ گورنمنٹ  کا ایک محکمہ ہے ،اور ہماری کمپنی کا اس محکمے کے ساتھ تحریری معاہدہ  یہ ہے کہ ہماری کمپنی اس محکمے کو جو سروس فراہم کرے گی اس کی فیس  محکمے سے وصول کرے گی ، ہماری کمپنی کے ملازمین کا کام مختلف پروجیکٹ پر ہونے والے کام کی چیکنگ اور سپرویزن کرناہے ،اورایک تیسری کمپنی کنسٹرکشن کمپنی ہے ، جو کہ ٹھیکیدارہے ،جو ہمارے آگے کام کرتی ہے، اور ہم کام کی چیکنگ اور سپرویزن کرتے ہیں ،اور ہمارا اپنی کمپنی کے ساتھ آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کا معاہدہ  ہے ،کہ ہم روزانہ آٹھ گھنٹے کام کریں گے ،جب کہ یہاں کام کی نوعیت کے اعتبار سے ہمیں کبھی  دس گھنٹے کبھی  بارہ گھنٹے اور کبھی اس سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتاہے ،اس لیے ہم ملازمین نے گورنمنٹ محکمے کے ایکس سی این سے بات کی کہ ہمارا جو اوورٹائم لگ رہاہے ،اس کے بدلے میں ہمیں ریلیف دیا جائے ،تو ایکس سی این نے کہا کہ میں دیکھ رہاہوں ،کہ کس ترتیب پر آپ کو اوورٹائم کے بدلے ریلیف دیاجائے ؟اور اس کی کیا ترتیب بنائی جائے ؟یہ کہہ کر  وہ چلا گیا اور ہماری  معلومات کے مطابق گور نمنٹ  محکمے  کے انچارج نے ہماری کمپنی کے انچارج کوہمارے اوورٹائم کے حوالے سے ایک خط لکھا،اور ساتھ کنسٹرکشن کمپنی جو کہ ٹھیکیدارہے ،اس سے زبانی کلامی بات بھی کی، کہ ان ملازمین کو اوور ٹائم دیا جائے ،اب ہماری کمپنی کے انچارج نے وہ خط ظاہر نہیں کیا ،اور اس کی مرضی یہ ہے کہ ہمارے ملازمین بغیر اوور ٹائم لیے کام کرتے رہیں، چاہے ان کا ٹائم آٹھ گھنٹے لگ رہا ہے یا اس سے زیادہ ،اب تیسری کمپنی کنسٹرکشن کمپنی جو کہ ٹھیکیدارہے ،اس سے ہم نے اوور ٹائم کی بات کی تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے ،ہم آپ کو اوورٹائم دینے کے لیے تیارہیں ،لیکن ہم ایسا کرتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ ہم گھنٹوں کا حساب کریں کہ کتنے گھنٹے آپ کے زائد لگتے ہیں ؟اور اس کی فیس کیا بنتی ہے؟اس حساب وکتاب سے بچنے کے لیے ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ آپ ملازمین کی جو تنخواہ مقرر شدہ ہے ،اس تنخواہ کے حساب سے پچاس فیصد ہم آپ کو اوور ٹائم کی مد میں اداکردیاکریں گے،ایک بات کی وضاحت کردوں کہ چوں کہ ہماری سپرویزن کی وجہ سے کنسٹرکشن کمپنی کاکام زیادہ نکلتاہے اور اس کی پروگریس بڑھتی ہے ،اس لیے وہ زیادہ ٹائم کام کروانا چاہتی ہے ،اور ہماری اپنی کمپنی کے ساتھ ہمارا ایگریمنٹ تو آٹھ گھنٹے ہی کا ہے،لیکن آج کل ایسا ہوتاہے ، کہ جو بھی انچارج ہوتاہے وہ یہی چاہتاہے کہ میرا اسٹاف بغیرکسی بات کے کام کرتارہے ،چاہے جو بھی ٹائم لگے ،تو مذکورہ تفصیل کے بعد مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ

1:کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم کنسٹرکشن کمپنی جو کہ ٹھیکیدارہے، اس سے اپنی تنخواہ کے حساب سے پچاس فیصد اوورٹائم کی مد میں وصول کرے؟اگر یہ طریقہ غلط ہے تو صحیح طریقہ کیا ہے؟

2: کیا ملازم سے بغیر کسی اجرت کے زیادہ ڈیوٹی لینا جائز ہے؟

براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں سائل جس کمپنی میں ملازم ہے ،اور وہ سائل کو ماہانہ تنخواہ دیتی ہے ، اور اس کی  نمائندگی کرتے ہوئے سائل کنسٹرکشن یا دیگر کمپنیوں کی نگرانی کرتاہے ، تو جتنا ٹائم سائل نے اپنی کمپنی کے ساتھ ایگریمنٹ میں طے کیا ہے اتنا ہی ٹائم  دینے کا سائل پابند ہے ،اس کے علاوہ سائل آزاد ہے اپنے لیے براہ راست کسی بھی کام کی اجرت لے کرکر سکتاہے ، البتہ مذکورہ (کنسٹرکشن )کمپنی میں سائل چوں کہ اپنی کمپنی کی نمائندگی کرتے ہوئے کام کرتاہے لہذا اسی کمپنی میں مزید اضافی کام کرنے میں سائل کو  اپنی کمپنی سے اوور ٹائم کی فیس کا مطالبہ کرنا چاہیے ،البتہ  اپنی کمپنی  اوور ٹائم کی  تنخوہ نہیں دیتی ہے ،تو دوسری (کنسٹرکشن ) کمپنی وغیرہ سے اضافی ٹائم کی  تنخواہ لے سکتاہے  ۔

2:نیز ملازم سےاس کی مرضی کے بغیر  مقرر شدہ ٹائم سے زیادہ کام لینا شرعاً درست نہیں  ہے۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(و) ثاني النوعين ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير واحد أيضا (هو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص) وفوائد القيود عرفت مما سبق (ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته، وإن لم يعمل كأجير شخص لخدمته أو رعي غنمه) وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع من العمل مانع كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره أو ذكر المدة أو لا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام أقول سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن يكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ ،انواع الاجیر،ج:2،ص:236،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"والخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولهذا يبقى الأجر مستحقا وإن نقض العمل ،قال أبو السعود: يعني وإن نقض عمل الأجير رجل، بخلاف ما لو كان النقض منه فإنه يضمن كما سيأتي(قوله حتى يعمل)  لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما، فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل أو أثره على ما بينا فلا بد من العمل زيلعي والمراد لا يستحق الأجر مع قطع النظر عن أمور خارجية."

(کتاب الاجارۃ،باب ضمان الاجارۃ،ج:6،ص:64،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100847

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں