بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مزدور کی اجرت پسنہ خشک ہونے سے قبل دینا چاہیے


سوال

 ہم اىك فىكٹرى مىں ملازمت كرتے ہىں، جس مىں لىدر كے كوٹ بنائے جاتے ہىں اور ىہاں سے بننے كے بعد پھر وہ كراچى بھىجے جاتے ہىں، جہاں ان پر مزىد كام كے بعد بىرونِ ملك اىكس پورٹ كىا جاتا ہے، اسى وجہ سے مال كے پىسے بہت لىٹ ملتے ہىں، اور اس كا اثر ہم مزدوروں پر بھى پڑتا ہے، جب تك سىٹھ كےپاس پىسے نہىں آتے، وہ ہمىں بھى نہىں دىتا، اور كئى كئى مہىنوں كى تنخواہ (بعض كى تنخواہ ماہانہ پچىس اور بعض كى تىس ہزار روپے ہے) ہم مزدوروں كى سىٹھ كے ذمہ باقى ہے، ہم غرىب لوگ ہىں، اگر كبھى كسى كو پىسے ضرورت ہو اور گزشتہ (تىن، چار مہىنوں كى سابقہ) تنخواہ وصول كرنے كے لىے سىٹھ كے پاس كوئى مزدور جائے، تو سىٹھ عجىب عجىب سوال پوچھتا ہے كہ كتنے پىسے چاہئىں؟ كىوں چاہئىں؟ مزىد ىہ سىٹھ كا منشى جلتى پر تىل كا كام كرتا ہے، وہ كہتا ہے سىٹھ صاحب پچھلے مہىنے بھى ىہ آىا تھا اور مىں نے اس كو آٹھ ہزار روپے دىے تھے، اس وقت دل سے بہت بددعائىں نكلتى ہىں، سىٹھ كا كہنا ىہ ہے كہ پىسے نہىں ہىں، مجبورى ہے، تمہىں اپنى تنخواہ كى پڑى ہے، تم كمپنى كے ساتھ مخلص نہىں ہو، اسى قسم كى باتىں كركے سىٹھ مزدور كى خوب بے عزتى كرتا ہے، مزدور بے چارہ خاموش ہوكر واپس آجاتا ہے، اور جب سىٹھ كے پاس كراچى سے پىسے آجاتے ہىں، تو اكٹھى سابقہ مہىنوں كى تنخواہ نہىں دىتا، بلكہ رُلا رُلا كر تھوڑے تھوڑے دىتا ہے۔ مفتى صاحب پوچھنا ىہ ہے كہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچےہىں، موجودہ حالات مىں مہنگائى كی صورتِ حال آپ كے سامنے ہے، ہم مجبور ہىں، ملازمت چھوڑ بھى نہىں سكتے، كىا سىٹھ كا ىہ طرزِ عمل صحىح ہے، ہم اىڈوانس تنخواہ تو نہىں مانگ رہے كہ سىٹھ ىہ پوچھے كہ كتنے پىسے چاہئىں؟ كىوں چاہیىں؟ اور تنخواہ مانگتے وقت بےعزت كردے، كىا سىٹھ كو ىہ حق حاصل ہے؟ اور ہم مىں سے كوئى اس كو دل ہى دل مىں بدعا دے سكتا ہے، بالفرض اگر فى الوقت پىسے نہىں اور جب آجائىں، تو اس وقت اكٹھے نہ دىنا اور كبھى پانچ ہزار، كبھى دس ہزار، كىا سىٹھ كى ىہ روش صحىح ہے؟ كىا سىٹھ كا ىہ كہنا كہ آپ كمپنى كے ساتھ مخلص نہىں درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ملازمین کی تنخواہ طے شدہ معاہدے کے مطابق بروقت ادا کرنی چاہیے، بلاوجہ ٹال مٹول کرنا اور مانگنے پر شرمندہ اور لعن طعن کرناجائز نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے آپ نے فرمایا کہ:  مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دو۔

صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل کا بیان درست اور واقعے کے مطابق ہے تو فیکٹری مالکان کا مزدوروں کے ساتھ مذکورہ رویہ  شرعاً درست نہیں ہے، سیٹھ کو چاہیے کہ مزدوروں کی جو ماہانہ تنخواہ مقرر ہے وہ بروقت ادا کرے، جان بوجھ کر بلاوجہ تنگ کرنا، ماہانہ یا سابقہ  تنخواہ مانگنےپر شرمندہ کرنا  اور ان کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاناجائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: قیامت کے دن جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ان میں ایک وہ شخص  بھی ہو گاجس نے کسی کو مزدور رکھا اور اس سے پورا پورا کام لیا، مگر مزدوری پوری  ادانہ  کی، لہذا مزدورں کی مزدوری بروقت ادا کرنی چاہیے اور سابقہ تنخواہ  کا باقی ماندہ بھی فی الفور ادا کرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے بھی ایسا نظم بنایا جائے کہ مزدورں کی ماہانہ تنخواہ بروقت ادا کی جائے۔

نیز مزدوروں  کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش اور قانونی کار روائی  کی اجازت ہے ،اور   جب مذکورہ جگہ  ملازمت پر ان سب پریشانیوں کا سامنا ہے تو متبادل نوکری تلاش کریں،  اچھی جگہ  ملنے پر یہاں کی نوکری چھوڑ دیں۔ باقی بددعا دینا مناسب نہیں ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"حدثني بشر بن مرحوم، حدثنا يحيى بن سليم ، عن إسماعيل بن أمية، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قال الله: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعط أجره."

(صحیح البخاری، باب إثم من باع حرا، ج: 3، ص: 82، رقم الحدیث: 2227، ط: دار طوق النجاة)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا العباس بن الوليد الدمشقي قال: حدثنا وهب بن سعيد بن عطية السلمي قال: حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن أسلم، عن أبيه، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقه»."

(سنن ابن ماجه، ج: 2، ص: 817، رقم الحدیث: 2443، ط: دار إحياء الكتب العربية)

وفیہ ایضاً:

"حدثنا أسود بن عامر، قال: أخبرنا أبو بكر، عن عاصم، عن أبي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌اقتطع ‌مال امرئ مسلم بغير حق، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان."

(مسند احمد، ج:7، ص:59، رقم :3946 ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

ترجمہ:"جس نےنا حق کسی مسلمان کا مال  روک لیا وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر، ج:6، ص:72، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں