بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجیرِ خاص کا اپنے مقرر کام کے علاوہ کام کرنے کی اجرت خود لینے کا حکم


سوال

میں سعودی عرب میں  ایک آدمی کے  پاس ماہانہ مزدور ہوں،  پردوں  کی فٹنگ کرتا ہوں،  وہ آدمی لوگوں سے گھر کا کام لےکر ہم سے کرواتا ہے،  کبھی کبھار عرب لو گ اضافی کام ہم سے کرواتے ہیں، جس  پیسے الگ سے ہمیں دیتے ہیں، جو کہ ہم خود لے لیتے ہیں ،اس آدمی کو،  جس کے ساتھ  ہم ماہانہ کام کرتے ہیں اس کو،  نہیں دیتے ،کیا یہ پیسے ہمارے لیے  جائز ہیں؟یاد رہے یہ اضافی کام ہمارے مالک کے کام سے اضافی ہوتاہے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے  کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں   اگر سائل مذکورہ شخص کا ماہانہ ملازم ہے، اور وہ شخص سائل کو ماہانہ تنخواہ دیتا ہے، خواہ کام کم ہو یا زیادہ ہو،  اور پھر گھر والے سائل  سے مقرر ہ وقت کے اندر  اضافی  کام  کرواکر  اس کی رقم الگ سے دیتے ہیں تو  ملازم کے لیے یہ رقم لینا درست نہیں، وہ مالک کو دینی ہوگی (یعنی جس کے  پاس ماہانہ مزدور  ہے)۔

اور  اگر سائل کے مقررہ وقت  کے علاوہ  اس سے  اضافی کام لیا جاتا ہے تو  چوں  کہ  یہ  ملازمت کی مفوضہ ذمہ داریوں کے علاوہ ہیں تو   سائل کا اضافی کام کرنےکی صورت میں  اضافی اجرت   اپنے لیے لینا جائز ہے۔

اسی طرح اگر سائل  ٹھیکہ پر کام کرتا ہے تو  اس صورت میں زائد کام کا پیسہ سائل کے لیے لینا جائز ہوگا۔

    فتاوی شامی میں ہے:

"و ليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: و ليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الاجارۃ، باب ضمان الاجارۃ، ج:6، ص:70، ط: سعید)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(و) ثاني النوعين ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير واحد أيضا (هو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص) وفوائد القيود عرفت مما سبق (ويستحق الأجر بتسليم نفسه مدته، وإن لم يعمل كأجير شخص لخدمته أو رعي غنمه) وليس له أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه صارت مستحقة له والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع من العمل مانع كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن من العمل اعلم أن الأجير للخدمة أو لرعي الغنم إنما يكون أجيرا خاصا إذا شرط عليه أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره أو ذكر المدة أو لا نحو أن يستأجر راعيا شهرا ليرعى له غنما مسماة بأجر معلوم، فإنه أجير خاص بأول الكلام أقول سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن يكون لغيره فيها أيضا."

(کتاب الاجارۃ، انواع الاجیر، ج:2، ص:236، ط: دار إحياء الكتب العربية)

بدائع الصنائع میں ہے:  

"وللأجير أن يعمل بنفسه وأجرائه إذا لم يشترط عليه في العقد أن يعمل بيده؛ لأن العقد وقع على العمل، والإنسان قد يعمل بنفسه وقد يعمل بغيره؛ ولأن عمل أجرائه يقع له فيصير كأنه عمل بنفسه، إلا إذا شرط عليه عمله بنفسه؛ لأن العقد وقع على عمل من شخص معين، والتعيين مفيد؛ لأن العمال متفاوتون في العمل فيتعين فلا يجوز تسليمها من شخص آخر من غير رضا المستأجر."

(كتاب الإجارة، فصل في حكم الإجارة، ج:4، ص: 208، ط: دار الكتب العلمية) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں