بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 جُمادى الأولى 1446ھ 10 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عقدِ اجارہ اور مضاربتِ فاسدہ کا حکم


سوال

 ایک شخص میرے ساتھ مل کر کاروبار کرناچاہتا ہے اور  وہ سارا پیسہ لگانا چاہتا ہے، وہ مجھے ساری مشینری  لےکر دےگا ، لیکن وقت دینے سے قاصر ہے،مجھے اس کے ساتھ کس طرح  کام کرنا چاہیے؟ اور نفع ،نقصان کا حکم ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک شخص کی مشینری ہو اور دوسراشخص اس کے ذریعہ مال تیار کرکےآگے فروخت کرے اور نفع ،نقصان میں شرکت کی جاۓ تو ایسا کرنا شرعاً درست نہیں ہے،اس کی جائز صورت یہ ہے کہ آپ یہ مشینیں اس کے مالک سے کراۓ پر حاصل کرلیں  اور اس کی ماہانہ اجرت طے کرلیں ،کرایہ دینے کے بعد نفع آپ کا ہوگااور نقصان بھی سارا آپ کا ہوگا،مشینیں کراۓ پر دینے والا کاروبار کے نقصان میں شریک نہیں ہوگا۔

اور اگر صورت یہ ہے کہ ان مشینوں پر کام نہیں کیا جاۓ گا بلکہ  انہی کو فروخت کیا جاۓ گایعنی یہ مشینیں ہی مالِ تجارت ہیں  تب بھی یہ معاملہ درست نہیں ہے،ایسی صورت میں جواز کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص آدھی مشینیں آپ کو فروخت کردے اگرچہ ادھار میں ہو،اور  ان مشینوں کو فروخت کرکے نفع آدھا آدھا تقسیم کرلیا جاۓ ایسی صورت میں نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(منها) أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة ‌بالعروض، وعند مالك - رحمه الله -: هذا ليس بشرط وتجوز المضاربة ‌بالعروض والصحيح قول العامة لما ذكرنا في كتاب الشركة أن ربح ما يتعين بالتعيين ربح ما لم يضمن؛ لأن العروض تتعين عند الشراء بها، والمعين غير مضمون، حتى لو هلكت قبل التسليم لا شيء على المضارب، فالربح عليها يكون ربح ما لم يضمن.

«ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن ربح ما لم يضمن»، وما لا يتعين يكون مضمونا عند الشراء به حتى لو هلكت العين قبل التسليم، فعلى المشتري به ضمانه، فكان الربح على ما في الذمة فيكون ربح المضمون، ولأن المضاربة ‌بالعروض تؤدي إلى جهالة الربح وقت القسمة؛ لأن قيمة العروض تعرف بالحرز والظن، وتختلف باختلاف المقومين، والجهالة تفضي إلى المنازعة، والمنازعة تفضي إلى الفساد، وهذا لا يجوز. وقد قالوا: إنه لو دفع إليه عروضا، فقال له: بعها واعمل بثمنها مضاربة فباعها بدراهم أو دنانير وتصرف فيها جاز؛ لأنه لم يضف المضاربة إلى العروض وإنما أضافها إلى الثمن، والثمن تصح به المضاربة"

(كتاب المضاربة،‌‌فصل في شرائط ركن المضاربة،82/6،ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا خلاف في أن ‌المستأجر ‌أمانة ‌في يد المستأجر كالدار، والدابة، وعبد الخدمة، ونحو ذلك، حتى لو هلك في يده بغير صنعه لا ضمان عليه؛ لأن قبض الإجارة قبض مأذون فيه، فلا يكون مضمونا كقبض الوديعة والعارية."

(كتاب الإجارة،‌‌فصل في حكم الإجارة،210/4،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"إذا اشترك اثنان على أن يحمل أحدهما أمتعته على دابة آخر للجوب بها وبيعها على أن يكون الربح بينهما مشتركا فتكون الشركة فاسدة ويكون الربح الحاصل لصاحب الأمتعة ويأخذ صاحب الدابة أجر دابته أيضا."

(‌‌الكتاب العاشر: الشركات،‌‌الباب السادس: في بيان شركة العقد،‌‌الفصل الثالث: في بيان الشروط الخاصة بشركة الأموال،رقم المادة :1344،ص:257،ط:نور محمد )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں