بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

آج کے بعد میری بیٹیاں گھر کے دروازے یا نیچے والی سیڑھیوں تک گئیں تو میری طرف سے فارغ ہو کہنے کا حکم


سوال

میر امسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ رات بیٹیوں کی وجہ سے میری اپنی بیوی سے کچھ ضد ہوئی،جس پر میں نے اسے دھمکانے کے لیے کہدیاکہ :”آج کے بعد میری بیٹیاں گھر کے دروازے یا نیچے والی سیڑھیوں تک گئیں تو میری طرف سے فارغ ہو“ اس کے بعد سے اب تک میری بیٹیاں سیڑھیوں تک نہیں گئی ہیں اور نہ گھر سے باہر گئی ہیں۔اور میری نیت  بھی ایسی نہیں تھی کہ میں اسے طلاق دوں،یہ معاملہ گھر کے اندر ہوا تھا،ہم جس مکان میں رہتے ہیں وہ بلڈنگ کا آخری فلور ہے،واضح رہے کہ گھر سے باہر نکلنے کا دوسرا راستہ بھی ہے۔براہِ کرم شریعت کے مطابق میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  ”فارغ“ کا لفظ طلاق کے لیے بطورِ کنایہ استعمال ہوتا ہے،اگر یہ لفظ طلاق کے مطالبہ پر یا طلاق کی نیت سے بولا جائے تو طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔نیز اگر طلاق کی نیت نہ ہو اسی  طرح مذاکرۂ  طلاق بھی نہ ہو تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً آپ نے طلاق کی نیت کے بغیر محض اپنی بیوی کو ڈرانے  دھمکانےکے لیے مذکورہ جملہ:”آج کے بعد میری بیٹیاں گھر کے دروازے یا نیچے والی سیڑھیوں تک گئیں تو میری طرف سے فارغ ہو“ کہا ہےتو اس کے بعدبیٹیوں کا گھر سے باہر نکلنے یا سیڑھیوں تک جانے سے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،میاں بیوی دونوں  کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔

تاہم آئندہ کے لیے اس طرح کے الفاظ بولنے سے اجتناب کریں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"(الفصل الخامس في الكنايات) لايقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام: (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي، اعزبي، قومي، تقنعي، استتري، تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية، برية، بتة، بتلة، بائن، حرام، والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب، ففي حالة الرضا لايقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاء إلا فيما يصلح جواباً ورداً فإنه لايجعل طلاقا كذا في الكافي وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولا يصلح للرد والشتم كقوله: اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لايصدق فيها كذا في الهداية. وألحق أبو يوسف - رحمه الله تعالى - بخلية وبرية وبتة وبائن وحرام أربعة أخرى ذكرها السرخسي في المبسوط وقاضي خان في الجامع الصغير وآخرون وهي لا سبيل لي عليك، لا ملك لي عليك، خليت سبيلك، فارقتك ولا رواية في خرجت من ملكي، قالوا هو بمنزلة خليت سبيلك، وفي الينابيع ألحق أبو يوسف - رحمه الله تعالى - بالخمسة ستة أخرى وهي الأربعة المتقدمة وزاد خالعتك والحقي بأهلك هكذا في غاية السروجي."

(کتاب الطلاق، الباب الثانی فی ایقاع الطلاق، ج:1، ص:375/374، ط:دارالفکر بیروت)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل".

(کتاب الطلاق،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ج:6،ص:72،ط:دار المعرفة - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں