بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آج کل کے علماء کے اتفاق کو اجماع کہا جائے گا یا نہیں؟


سوال

 شریعت کا اگر کوئی مسئلہ بتا نا ہو تو پہلے قرآن سے، پھر حدیث، پھر اجماع اور پھر قیاس سے بتایا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ :

1)اجماع کی مکمل جامع مانع تعریف بتائیں۔

2)اور یہ بتائیں کہ اگر وقت کے اکثر علما ء کسی مسئلہ پر اتفاق کرلیں، مگر چند جو اکثر کےمقا بلہ میں بہت کم ہوں، البتہ وہ چند معتد بھم ہوں اور  وہ اجماع کےخلاف دلیل کی بناء پر کوئی رائے دیتے ہوں، تو کن کی بات مانی جائے گی؟ چند کی یا اکثر کی؟حالاں کہ اکثر وقت کے بڑے عالم ہیں۔

3)اور اگر ان چند کے پاس کوئی فتویٰ لینے جائے تو ان پر کیا لازم ہے کہ وہ اپنی رائے بتائیں یا مجمع علیہ رائے بتائیں ،کیوں کہ شریعت تو یہ کہتی ہے کہ قرآن حدیث کے بعد مسئلہ اجماع سے بتایا جائےگا، مثلا ایک مشہور دار الافتاء کا صفا مروہ والے مسئلہ میں  قصر اور اتمام کے حوالہ سے الگ موقف ہے، اور جو اکثر علماء کا اجماع ہے وہ الگ ہے ، تو اب اجماعی مسئلہ پر فتویٰ ہوگا یا خاص ان کے موقف پر؟ اور ان کے لیے  کیا  مناسب ہے؟ 

4)نیز اجماع کے لیے کیا یہ ضروری ہے؟کہ  مذاہبِ اربعہ کے علماء متفق ہو جائیں تو مسئلہ مجمع علیہ ہوگا یا ہر مذہب کے علماء کا اجماع الگ شمار ہوگا؟ اگرچہ امام شافعی یا امام مالک اس اجماع سے اختلاف کرتے ہوں ۔

5)اور کیا ،اگر پا کستان میں اکثر علما ء ایک رائے پر اجماع کرلیں اور ایک بڑا معتبر عالم  اس اجماعی رائے سے متفق نہ ہو، تو کیا یہ اجماع منعقد شمار ہوگا یا ان ایک کی وجہ سے منعقد شمار نہ ہوگا؟ 

جواب

1)اجماع کی تعریف یہ ہے کہ’’ اجماع امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک زمانے کے تمام مجتہدین علماء کا کسی حکمِ شرعی پر اتفاق کرلینا‘‘،چوں کہ اجتہاد کا زمانہ باتفاقِ علماء چوتھی صدی ہجری کے بعد سے بند ہوچکا ہے،اس لیے اب اجماع کا ہونا بھی ممکن نہیں رہا،آج کل اگر اکثر علماء کسی مسئلے میں ایک حکم شرعی پر اتفاق کرلیں تو ان کے اس عمل کو اتفاق رائے تو کہا جاسکتا ہے،اجماع نہیں کہا جاسکتا،اسی وجہ سے اس سے انحراف پر اجماع کے احکام بھی جاری نہیں ہوں گے۔

2)اگر وقت کے اکثر علماء کسی بات پر اتفاق کرلیں،مگر چند ایک علماء کا دلیل کی بناء پر ایک الگ مؤقف ہو ،تو عام آدمی جس کو دلائل کی مضبوطی اور طرقِ استنباط کا علم نہ ہو،تو اسے  جمہور اور اکثر علماءکے قول كو مان كر اسی  پر عمل کرنا چاہیے۔

3)صورتِ مسئولہ میں چوں کہ اب اجتہاد ممکن نہیں ،اور اجتہاد ممکن نہ ہونے کی وجہ سے اجماع بھی ممکن نہیں،اس لیے اگر کسی  مفتی صاحب سے کوئی آدمی کسی ایسے مسئلے کے بارے میں سوال کرے جو نہ قرآن میں موجود ہو،نہ حدیث میں ،نہ اس پر سابقہ زمانہ میں اجماع ہوا ہو،اور نہ ہی صاحبِ مذہب کی طرف سے اس مسئلے میں کوئی تصریح موجود ہو، اور فی الوقت اس میں علماء کی مختلف آراء ہوں ،تو ان مفتی صاحب کو  چاہیے کہ وہ  خوفِ خدا دل میں رکھ کر،خوب تحقیق کرکے،اپنے علم کے مطابق  جور ائے ان کو دلائل سے مضبوط  اور راجح لگے اسی کے مطابق اس سائل کو جواب  دیں،اس کے بعد ان کا ذمہ بری ہے،دوسرےعلماء کی آراء کو اپنانے کے وہ پابند نہیں ہیں،ہاں ،اگر کوئی مسئلہ پہلے سے قرآن و حدیث میں موجود ہو،یا وہ سابقہ زمانے کے مجتہدین کا مجمع علیہ مسئلہ ہو،یا صاحبِ مذہب کی طرف سےاس مسئلے میں کوئی تصریح موجود ہو،تو اب کسی کے لیے بھی اس  منصوصی ، اجماعی یا مصرَّح حکم سے  انحراف کرنا جائز نہیں ہے۔

باقی صفا،مروہ  کے بارے میں قصر اور اتمام کے اختلاف کے متعلق کوئی  مؤقف ہماری نظر سے نہیں گزرا ہے،سائل اگر کسی خاص چیز سے متعلق سوال کرنا چاہ رہا ہے تو وضاحت سے دوبارہ سوال لکھ کر،جواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔

4)اجماع کے لیے ایک زمانے کے تمام کے تمام مجتہدین علماء کا اتفاق ضروری ہے، چاہے وہ مذاہبِ اربعہ میں سے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

5)چوں کہ اب اجماع ممکن نہیں رہا اس لیےاگرپاكستان کے کسی بڑے عالم کی رائے، دلیل کی بناء پر عام علماء کی آراء سے مختلف ہو،تو ان کے اس اختلاف کو اجماع سے انحراف شمار نہيں کیا جائے گا۔

"ألتلويح على التوضيح"میں ہے:

"الركن الثالث في الإجماع، وهو اتفاق المجتهدين من أمة محمد عليه الصلاة والسلام  في عصر على حكم شرعي."

(ص:81،ج:2،القسم الأول،الركن الثالث،ط:دار الكتب العلمية)

وفيه ايضا:

"وأما الثاني ففي أهلية من ينعقد به الإجماع، وهي لكل مجتهد ليس فيه فسق ولا بدعة فإن الفسق فيه يورث التهمة، ويسقط العدالة، وصاحب البدعة يدعو الناس إليها وليس هو من الأمة على الإطلاق."

(ص:91،ج:2،القسم الأول،الركن الثالث،ط:دار الكتب العلمية)

"رد المحتار"میں ہے:

"’’مطلب القياس ‌بعد ‌عصر الأربعمائة ‌منقطع  فليس لأحد أن يقيس‘‘ علي أن القياس بعدالأربعمائة منقطع،فليس لأحد بعدها أن يقيس مسألة على مسألة كما ذكره ابن نجيم في رسائله. اهـ."

(ص:589،ج:1،كتاب الصلاة،باب الإمامة،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه ايضا:

"وإذا اختلف مفتيان في جواب حادثة أخذ بقول أفقههما بعد أن يكون أورعهما سراجية وفي الملتقط وإذا أشكل عليه أمر ولا رأي له فيه شاور العلماء ونظر أحسن أقاويلهم وقضى بما رآه صوابا لا بغيره."

(ص:361،ج:5،كتاب القضاء،مطلب يفتى بقول الإمام على الإطلاق،ط:ايج ايم سعيد)

"ألتقرير والتحبير"میں ہے:

"واصطلاحا اتفاق مجتهدي عصر من أمة محمد  صلى الله عليه وسلم  على أمر شرعي، فاتفاق مجتهدي عصر يفيد اتفاق جميعهم أي اشتراكهم في ذلك الأمر المجمع عليه فخرج ما اتفق عليه بعضهم كما هو قول الجمهور وإنما الشأن فيما إذا انفرد واحد في عصر هل يكون قوله إجماعا فظاهر هذا لا ولا ضير؛ لأن الأظهر أن قوله ليس إجماعا كما سيأتي ويفيد أنه لا عبرة باتفاق غيرهم."

(ص:80،ج:3،ألباب الرابع في الإجماع،ط:دار الكتب العلمية)


وفيه ايضا:

"بل الجمهور على أنه لا يعتبر خلاف العامي الصرف ولا وفاقه والقاضي أبو بكر الباقلاني يعتبر مطلقا...وأما العامي غير الصرف ممن حصل علما معتبرا من فقه أو أصول فمن الظاهر أن القاضي يعتبره في الإجماع بطريق أولى، وأما غيره فمنهم من طرد عدم اعتباره أيضا نظرا إلى فقد أهلية الاجتهاد ومنهم من اعتبره بحصول قوة النظر له في الأحكام أو في الأصول ولا كذلك العامي، ومنهم من اعتبر الفقيه لا الأصولي؛ لأن الفقيه عالم بتفاصيل الأحكام التي يبنى عليها الخلاف والوفاق ومنهم من عكس لكون الأصولي أقرب إلى مقصود الإجتهاد لعلمه بمدارك الأحكام على اختلاف أقسامها وكيفية استفادتها منها، والأول هو المشهور وعليه التعريف ويفيده اختصاص الإجماع بالمسلمين؛ لأن الإسلام شرط في الإجتهاد ويلزمه خروج من يكفر ببدعته كالكافر أصالة."

(ص:81،ج:3،ألباب الرابع في الإجماع،ط:دار الكتب العلمية)

"أصول الشاشي"میں ہے:

"والمعتبر في هذا الباب إجماع أهل الرأي والإجتهاد فلا يعتبر بقول العوام والمتكلم والمحدث الذي لا بصيرة له في أصول الفقه."

(ص:80،ألبحث الثالث بالإجماع،‌‌بحث كون الإجماع على أربعة أقسام،ط:دار الكتب العربي)

"تقويم الأدلة لأبي زيد الدبوسي"میں ہے:

"حد الإجماع الذي هو حجة؛ إجماع علماء العصر من أهل العدالة والإجتهاد على حكم."

(ص:28،القول فی تحدید الإجماع،ط:دار الكتب العلمية)

"شرح عقود رسم المفتي"میں ہے:

" قال في آخر الحاوي القدسي:ومتي لم يوجد عن أبي حنيفة في المسألة رواية يؤخذ بظاهر قول أبي يوسف ثم بظاهر قول محمدثم بظاهر قول زفر والحسن وغيرهم الأكبر فالأكبر هكذا الي آخر من كان من كبار الأصحاب.وإذا لم يوجد في الحادثة عن واحد منهم جواب ظاهر و تكلم فيه المشايخ المتأخرون قولا واحدا يؤخذ به فإن اختلفوا يؤخذ بقول الأكثرين مما اعتمد عليه الكبار المعروفون كأبي حفص و أبي جعفر و أبي الليث والطحاوي و غيرهم فيعتمد عليه. وإن لم يوجد منهم جواب البتة نصا ينظر المفتي فيها نظر تأمل و تدبر واجتهاد؛ ليجد  فيها ما يقرب إلي الخروج عن العهدة ولا يتكلم فيها جزافا؛لمنصبه وحرمته وليخش الله تعالى ويراقبه فإنه امر عظيم لا يتجاسر عليه إلا كل جاهل شقي."

(ص:52،طریق الإفتاء عند عدم الرواية،ط:ألمكتبة البشري)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں