عائزہ، عنشہ، عنیزہ، عبیرہ، حورین، حوریہ اور ان میں سے کون سا نام رکھنا بہتر ہے؟
’’حُوْرین‘‘ (’ح‘ کے ضمہ کے ساتھ) لفظ ’’حُوْر‘‘ کی تثنیہ یا جمع ہوسکتا ہے، اور لفظِ ’’حُوْر‘‘ میں تین احتمال ہیں: 1- ’’أَحْوَر‘‘ (مذکر صفت) کی جمع ہو۔ اس اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں۔2- ’’حَوْرَاء‘‘ (مؤنث صفت کی جمع ہو)، اس اعتبار سے اس کا معنیٰ ہیں: سفید رنگت والی عورتیں، ’’حور‘‘ جنت کی عورتوں کو کہتے ہیں۔ لیکن ’’حُوْر‘‘ مفرد نہیں، بلکہ جمع ہے۔ ان دونوں احتمالات (’’أَحْوَر‘‘کی جمع ہو یا ’’حَوْرَاء‘‘ کی) کے اعتبار سے ’’حُوْر‘‘ کی تثنیہ یا جمع ’’حُوْرین‘‘ درست نہیں ہے۔3- ’’حُوْر‘‘ (مفرد اسم) ہو، اس کا معنیٰ ہے: نقصان، اور ہلاکت۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔
سوال میں ذکر کردہ تمام ناموں کے معانی ہم نے بیان کردیے ہیں،بعض نام معنی کے اعتبار سےنام رکھنے کے لیےمناسب ہیں اور بعض مناسب نہیں ہیں ،لیکن بہتر یہ ہے کہ ان ناموں کے بجائے بچی کا نام صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھ لیاجائے،کیونکہ اچھے یا بُرے نام کا شخصیت پر اثر پڑھتا ہے۔
تکملۃالمعاجم العربیۃ میں ہے:
"عائز: محتاج، فقير، معسر."
(ج۷،ص۳۵۱،ط؛وزارۃ الثقافۃ والاعلام۔الجمہوریۃ العراقیہ)
لسان العرب میں ہے:
"وعنيزة اسم امرأة تصغير عنزة. وعنزة وعنيزة: قبيلة. قال الأزهري: عنيزة في البادية موضع معروف، وعنيزة قبيلة. قال الأزهري: وقبيلة من العرب ينسب إليهم فيقال فلان العنزي، والقبيلة اسمها عنزة."
(فصل العین المہملۃ،ج۵،ص۳۸۴،ط؛دار صادر۔بیروت)
صحیح البخاری میں ہے:
"سألت أنسا رضي الله عنه، عن صيام النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما كنت أحب أن أراه من الشهر صائما إلا رأيته، ولا مفطرا إلا رأيته، ولا من الليل قائما إلا رأيته، ولا نائما إلا رأيته، ولا مسست خزة ولا حريرة ألين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا شممت مسكة ولا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول الله صلى الله عليه وسلم."
(باب: ما يذكر من صوم النبي صلى الله عليه وسلم وإفطاره،ج۲،ص۶۹۶،ط؛دار ابن کثیر)
لسان العرب میں ہے:
"والحور الهلاك وكل ذلك في النقصان والرجوع."
(ٖصل الحاء المھملۃ،ج۴،ص۲۱۸،ط؛دار صادر۔بیروت)
قاموس فرنسي عربي إنجليزي میں ہے:
"حورِيَّة ( ج:حور،م:صفات) : عَذْراءُ جَمِيلَة."
(ج۱،ص۲۳۲۷)
لسان العرب میں ہے:
"عنشه عنشا: أغضبه. وعنيش وعنيش: اسمان."
(فصل العین المھملۃ،ج۶،ص۳۲۱،ط؛دار صادر۔بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100020
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن