بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف کی نیت کے ساتھ جمعہ کے غسل کی نیت کا حکم


سوال

اگر معتکف  نے اعتکاف کی نیت کے ساتھ جمعہ غسل کی نیت بھی کی ہو تو کیا وہ جمعہ کا  غسل کرسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ معتکف نے اگر مسنون اعتکاف کے وقت غسلِ جمعہ وغیرہ کے استثنا کے ساتھ نیت کی ہو، یعنی اعتکاف  کی نیت میں  جمعہ کے غسل  نیت بھی  کی ہو کہ اس غسل کے لیے مسجد سے نکلوں گا ، تب بھی اس کے لیے غسلِ جمعہ  کے لیے مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی، معتکف  کے لیے مسجد سے باہر جا کر صرف اس غسل کی اجازت ہے جو احتلام کی وجہ سے معتکف پر  واجب ہوا ہو  اور مسجد میں کوئی ایسا انتظام نہ ہو جس میں مسجد  کی تلویث کے بغیر معتکف غسل کر سکے تو ایسی صورت میں معتکف کے لیے مسجد سے باہر نکل کر غسل کرنے کی اجازت ہوگی۔

ہاں! اگر مستقل غسلِ جمعہ یا ٹھنڈک کی غرض سے غسل کے لیے نہ نکلے، بلکہ قضاءِ حاجت کے لیے جائے  اور وہاں جتنی دیر میں وضو کرتاہے، اتنی دیر میں جلدی جلدی  پورے جسم پر پانی بہا کر فورًا آجائے، اضافی وقت بالکل صرف نہ کرے، تو اس کی اجازت ہوگی۔

«حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

«إلا لحاجة شرعية" كالجمعة والعيدين فيخرج في وقت يمكنه إدراكها مع صلاة سنتها قبلها ثم يعود وإن أتم اعتكافه في الجامع صح وكره "أو" حاجة "طبيعية" كالبول والغائط وإزالة نجاسة واغتسال من جنابة باحتلام لأنه عليه السلام كان لا يخرج من معتكفه إلا»لحاجة الإنسان "

واغتسال من جنابة باحتلام" أما جناية الوطء فمفسدة وفيه أن الغسل من الحوائج الشرعية ولعل عدم إياه من الطبيعية باعتبار سببه كذا في كتابة الدرر."

(کتاب الصوم باب الاعتکاف ص نمبر ۷۰۲،دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں