بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف کی نذر کیوں درست ہے؟


سوال

میں نے نذر کی شرائط سے متعلق آپ کی ویب سائٹ پر ایک فتویٰ پڑھا تھا، جس میں تھا کہ نذر کے منعقد ہونے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، من جملہ اُن میں سے ایک یہ تھی کہ جس چیز کی نذر مانی جارہی ہے، وہ ایسا کام ہو جو عبادتِ مقصودہ ہو اور اس کی جنس  میں سے کوئی واجب پایا جاتا ہو، پھر میں نے آپ کی ویب پر ہی اعتکاف کی نذر سے متعلق ایک فتویٰ پڑھا، جس میں تھا کہ اعتکاف کی نذر منعقد ہوجاتی ہے۔

تو اب میرا سوال یہ ہے کہ جب نذر کے منعقد ہونے کے لے منذور کا عبادتِ مقصودہ اور واجب ہونا ضروری ہے، جب کہ اعتکاف نہ فرض ہے نہ واجب، تو پھر اس کی نذر کیسے درست ہے؟ حالاں کہ اس میں شرط نہیں پائی جارہی؟

جواب

علمائے کرام نے اس سوال کے مختلف جوابات دیے ہیں، ان میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

(۱):اگرچہ مسجد میں محض ٹھہرنا کوئی ایسی مستقل عبادت نہیں ہے جس کی جنس سے کوئی واجب موجود ہو، لیکن چوں کہ اس کا اصل مقصد جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہے، اور روزہ اس کے لیے شرط ہے، لہٰذا اعتکاف کی نذر میں نماز اور روزے کی نذر بھی شامل ہے، اور ان دونوں عبادتوں کی نذر ماننا درست ہے، لہٰذا اعتکاف کی نذر بھی درست ہے۔

(۲):نذر صحیح ہونے کے لیے صرف یہ ضروری نہیں کہ اس جنس سے کوئی واجب ہو، بلکہ یہ یہ ضروری ہے کہ اس کی جنس سے واجب ہو یا وہ واجب کو شامل ہو، جیسے عمرہ کی جنس سے واجب موجود نہیں ہے، لیکن عمرہ میں طواف اور سعی شامل ہیں، اس لیے عمرہ کی نذر درست ہے، اسی طرح اعتکاف بھی روزے پر مشتمل ہے اور روزہ کی جنس سے واجب موجود ہے، اگرچہ خود ٹھہرنے کی جنس سے کچھ واجب نہیں ہے، اور اعتکاف کی نذر  صحیح ہونے کے لیے روزہ کی جنس سے واجب کا موجود ہونا کافی ہے۔

(۳): فقہائے کرام کی تصریح کے مطابق اعتکاف کی نذر صحیح ہے، اور یہ بات حدیث سے ثابت ہے، اور نذر کا اعتکاف صحیح ہونے پر اجماع بھی منعقد ہوا ہے، لہٰذا اعتکاف کی نذر صحیح ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔

(۴):اعتکاف کی مشروعیت کی اصل حکمت نماز کی پابندی ہے، اس اعتبار سے اعتکاف قربت (ثواب کا کام) بنتا ہے، لہٰذا اعتکاف کا التزام (پابندی) حقیقت میں نماز کا التزام  ہے، اور نماز عبادتِ مقصودہ ہے، اور اعتکاف کی نذر صحیح ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے۔

(مأخوذ از نذر کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ۱/ ۶۸، ط: بیت العمار)

شرح النقایہ مختصرالوقایہ (البرجندی) میں ہے:

"(ولو نذر اعتكاف أيام) قد تقرر أن النذر يقتضي كون المنذور فيه قربة ونفس اللبث في المسجد ليس بقربة إذ ليس لله تعالى واجب من جنسه كما في الصوم والصلاة ونحوهما، لكن لما كان الغرض الأصلي منه الصلاة بالجماعة والصوم شرط لكان التزامه الجماعة أو الصوم وهما من التقرب."

(كتاب الصوم، فصل الإعتكاف، ١/ ٢٢٥، ط: حقانية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وذكر في اعتكاف المعراج. قلنا ‌بل ‌من ‌جنسه ‌واجب لله تعالى وهو اللبث بعرفة وهو الوقوف، والنذر بالشيء إنما يصح إذا كان من جنسه واجب، أو مشتملا على الواجب وهذا كذلك لأن الاعتكاف يشتمل على الصوم ومن جنس الصوم واجب وإن لم يكن من جنس اللبث واجب وتعقبه في الفتح في باب اليمين في الحج والصوم بأن وجوب الصوم فرع وجوب الاعتكاف بالنذر، والكلام الآن في صحة وجوب المتبوع. فكيف يستدل على لزومه بلزومه ولزوم الشرط فرع لزوم المشروط. ثم قد يقال: تحقق الإجماع على لزوم الاعتكاف بالنذر موجب إهدار اشتراط وجود واجب من جنسه اهـ أي فهو خارج عن الأصل."

(كتاب الأيمان، ٣ /٧٣٦، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"‌تحقق الإجماع على لزوم الاعتكاف بالنذر."

(كتاب الأيمان، ٣ /٧٣٦، ط: سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"وأورد أن الاعتكاف يلزم بالنذر وليس من جنسه واجب. أجيب بأن من شرطه الصوم ومن جنسه واجب، وتوجيهه أن إيجاب المشروط إيجاب الشرط، ولا خفاء في بعده فإن وجوب الصوم فرع وجوب الاعتكاف بالنذر، والكلام الآن في صحة وجوب المتبوع فكيف يستدل على لزومه بلزومه ولزوم الشرط فرع لزوم المشروط، وإن استدل بالإجماع أو النص المتقدم في حديث عمر - رضي الله عنه - الاعتكاف في الجاهلية فهم لا يقولون بهذا الحديث بل يصرفونه عن ظاهره لأنهم والشافعي لا يصححون نذر الكافر. ثم قد يقال تحقق الإجماع على لزوم الاعتكاف بالنذر يوجب إهدار اشتراط وجود واجب من جنسه."

(كتاب الأيمان، ‌‌باب اليمين في الحج والصلاة والصوم، ٥/ ١٨٣، ط: دارالفكر)

منحۃ الخالق حاشیہ البحرالرائق میں ہے:

"ثم ذكر عن جامع فخر الإسلام النذر بالاعتكاف صحيح ‌وإن ‌كان ‌ليس ‌لله تعالى من جنسه إيجاب؛ لأن الاعتكاف إنما شرع لدوام الصلاة؛ ولذلك صار قربة فصار التزامه بمنزلة الصلاة والصلاة عبادة مقصودة."

(كتاب الصوم، فصل في النذر، ٢/ ٣١٧، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں