بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف میں سب سے زیادہ کون سا عمل کرنا چاہیے؟


سوال

 اعتکاف میں سب سے زیادہ کون سا عمل کرنا چاہیے؟

جواب

نفسِ اعتکاف ان عبادات میں سے ہے جو پچھلے انبیاءِ کرام علیہم السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا ذکر فرمایاہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعد طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے اسے (بیت اللہ) پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔ گویا طواف ونماز کی طرح اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا خاص ذریعہ ہے کہ باری تعالیٰ اپنے دو برگزیدہ پیغمبروں کو معتکفین کی خدمت اور ان کے اعزاز میں مسجدِ حرام کی صفائی اور خدمت کا حکم ارشاد فرمارہے ہیں۔

اور رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ ﷺ کی مستقل سنت ہے، اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، امام زہری ؒ فرماتے ہیں : لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے، حال آں کہ رسول اللہ ﷺبعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے ، لیکن جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے،کبھی ترک نہیں کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ کما فی الحدیث)۔ اور حضورِ اکرم ﷺ کا ہمیشگی فرمانا (ترک کرنے والوں پر نکیر کیے بغیر) یہ اس کی سنیت کی دلیل ہے۔

نیز اعتکاف میں اللہ تعالیٰ کے گھر میں قیام کرکے تقربِ باری تعالیٰ کا حصول ہے، دنیا سے منہ موڑنا اور رحمتِ خداوندی کی طرف متوجہ ہونا اور مغفرتِ باری تعالیٰ کی حرص کرنا ہے ۔ اور معتکف کی مثال ایسے بیان فرمائی گئی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصود حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک نہیں لوٹوں گا، معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور مغفرت کا پروانا نہیں مل جاتا وہ نہیں جائے گا، ایسے میں اللہ کی رضا ومغفرت کی قوی امید، بلکہ اس کے فضل سے یقین رکھنا چاہیے اور لیلۃ القدر کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔

مسنون اعتکاف میں روزہ رکھنا بھی شرط ہے، معتکف کو چاہیے کہ اعتکاف میں پنج وقتہ فرض نمازیں باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادائیگی کا اہتمام کرے، تراویح اور وتر کی جماعت میں از اول تا آخر شریک رہے، قرآنِ کریم کی تلاوت، استغفار اور درود شریف کی کثرت کرے، دیگر اذکار، نوافل (تہجد، اشراق، چاشت اور صلاۃ التسبیح وغیرہ)، دعا کا بھی اہتمام کرے، فضول گوئی سے اجتناب کرے، ضرورت کی یا دینی باتیں کرے، دینی احکام سیکھنے سکھانے میں وقت صرف کرے، اور اگر ذمے میں قضا نمازیں ہوں تو انہیں ادا کرنے میں وقت صرف کرے۔

یاد رہے کہ اعتکاف کی حالت میں مستقل طور پر کوئی ایک عمل مخصوص یا زیادہ فضیلت والا نہیں ہے، تاہم رسول اللہ ﷺ نے حدیث مبارک میں اعتکاف کی ایک وجہ شبِ قدر کی تلاش بھی ارشاد فرمائی ہے، اس لیے مسنون اعتکاف کے دوران راتوں کی عبادت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ نیز اعتکاف کا دوسرا بڑا مقصد اللہ کے در پر پڑ کر اپنے گناہوں کی معافی اور آئندہ زندگی اس کی رضا کے مطابق گزارنے کا عزم بھی ہے؛ لہٰذا گناہوں (مثلاً غیبت وغیرہ)، لایعنی (بے مقصد کاموں) وغیرہ سے اجتناب کرتے ہوئے نیک اعمال میں مشغول رہے، استغفار کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ طلبِ صادق کو دیکھ کر ضرور رحمت و مغفرت کا پروانا عطا فرمائیں گے۔  فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں