بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعتکاف کے دوران غسلِ جمعہ یا غسلِ تبرید کا حکم


سوال

کیا اعتکاف کے دوران غسل سنت یا تبرید  کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم تو سر انور حجرہ مبارکہ میں کر دیتے تو ام المئومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ دھو کر کنگی کر دیتی تھیں،کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم تو جواز امت کے لیےبھی غسل فرمانے مسجد شریف سے باہر تشریف نہیں لائے، اگر باہر تشریف لا کر غسل فرمایا ہے تو حدیث شریف کا حوالہ دیں۔ اگر گرمی کی بات ہے تو وہاں تو پاکستان سے زیادہ گرمی ہے اور پسینے کی بد بو دور کرنے کے لیےخوشبو والی سنت پر عمل کیاجا سکتا ہے!

جواب

اعتکاف کے دوران معتکف کے لیے  طبعی یا شرعی ضرورت کے علاوہ کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، غسلِ جمعہ یا غسلِ تبرید (ٹھنڈک حاصل کرنے کا غسل) نہ طبعی ضرورت میں شامل ہے اور نہ ہی شرعی ضرورت میں، لہذا مسنون اعتکاف میں جمعہ کے غسل کے لیے یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے باہر نکلنا جائز نہیں، تاہم یہ جائز ہے کہ جب پیشاب کا تقاضا ہو تو پیشاب سے فارغ ہوکر غسل خانے میں دو چار لوٹے بدن پر ڈال لے، جتنی دیر میں وضو ہوتا ہے اس سے بھی کم وقت میں بدن پر پانی ڈال کر آجائے، چوں کہ اس میں اضافی وقت صرف کرنا اور غسل کے لیے مستقل نکلنا نہیں پایا جارہا۔ مذکورہ حدیث اس مسئلے کے لیے مستدل بن سکتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے مسنون اعتکاف کے دوران غسلِ تبرید یا جمعے کے غسل کے لیے مسجد سے باہر تشریف لے جانے کا ثبوت نہیں مل سکا۔  فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں